Abu-Daud:
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
(Chapter: Testimony of a bedouin against townpeople)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3602.
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ”کسی دیہاتی کی شہری کے خلاف گواہی جائز نہیں۔“
تشریح:
فائدہ: بدوی بادیہ سے ہے کہ خانہ بدوش کو کہتے ہیں۔ جو ایک جگہ کے ساکن نہیں ہوتے۔ بلکہ مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی بدوی سمجھ دار اور عدول ہو تو فی نفسہ اس کی گواہی معبتر ہوگی۔ خود رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے چاند کی رویئت میں بدوی کی شہادت قبول فرمائی۔ (أبودود، الصوم، باب في شھادة الواحد علی رؤیة ھلال رمضان) اس حدیث سے جو یہ بات سمجھائی گئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ بدوی عموما مستقل آبادیوں کے حالات عادات رسم ورواج اور طور طریقوں سے واقف نہیں ہوتے۔ نیز بڑے سادہ لوح ہوتے ہیں۔ اس لئے مشاہدے میں انھیں غلطی لگنے یاعدم فہم کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے کسی بستی یا شہر کے رہنے والے کے معاملے میں ان کی گواہی پراعتراض واقع ہوگا۔ اس سبب سے اس کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی۔ وہ معاملات جن کا فہم اہل بادیہ کے لئے آسان ہے۔ اس میں ان کی گواہی ہرطرح معتبر ہے۔ اس حدیث میں یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی بھی معاملے میں گواہی تب معتبر ہوگی۔ جب اس معاملے کے عمومی فہم کی استعداد موجود ہو۔ کسی خالص فنی معاملے میں عام انسا نوں کی گواہی معتبر نہ ہوگی۔ جب تک وہ اس معاملے کا فہم نہ رکھتا ہو۔
سنن ابوداود کی کتاب القضاء کا آغاز عمل قضا کی اہمیت‘ غرض مندوں اور مفاد پرستوں سے عمل قضا کو دور رکھنے اور فیصلہ کرنے کے حوالے سے اہم بنیادی اصول و آداب کے بیان سے ہوا اس کے بعد شہادت کے بارے میں انتہائی اہم اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ۔پھر وہ احادیث لائی گئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ شہادت کی عدم دستیابی کی صورت میں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اس کے بعد اس بارے میں روایات لائی گئیں کہ قرض وغیرہ کے معاملے میں حق دار کا حق ثابت ہو جانے کے بعد عملاً اس کی حق رسی کیسے کرائی جائے ‘اس کے بعد وکالت کا تذکرہ ہے اور آخر میں بعض انتہائی مشکل کیسوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر فیصلے کے ذریعے سے کئی انتہائی اہم اصول سامنے آتے ہیں جن کی قدم قدم پر جج کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ ذیلی کتاب بنیادی طور پر قضا اور آداب ِقضا کے متعلق ہے اس میں وہ اصول بیان کیے گئے ہیں جن کو آج کل قانون ضابطہ یا (Proedural Law) کی اساس سمجھا جاتا ہے اس حصے میں بالتفصیل قوانین کا بیان مقصود نہیں کیونکہ قوانین الگ الگ عنوانات سے بیان کر دیے گئے ہیں سول قوانین کا بیان کتا ب البیوع وغیرہ میں‘فوجداری قوانین کتاب الحدود میں ۔ اسی طرح میراث ‘نکاح و طلاق ‘ہبہ‘وصیت‘جنگ و امن وغیرہ کے قوانین اپنے اپنے متعلقہ عنوانات کے تحت بیان کر دیے گئے ہیں۔
٭منصب قضا کی اہمیت اور قاضی(judge) بننے کی صلاحیت : جج کا منصب ہمیشہ ایک پرُ وقار منصب سمجھا گیا۔ اس میں انسان کو ہر پیش ہونے والے معاملے میں بہت زیادہ اختیار بھی حاصل ہو جاتا ہے اس لیے یہ ایک ’’پرُ کشش ‘‘ ذمہ داری ہے اور اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ جو اس کی کشش کا شکار ہو جاتا ہے وہ ’’ذمہ داری‘‘ والے عنصر کو صحیح طور پر پیش نظر رکھنے میں ناکام رہتا ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان جس سے امام ابودادونے کتاب کے اس حصہ کا آغاز کیا ہے اس ذمہ داری کی سنگینی کو واضح کرتا ہے اگر کوئی انسان اس کی طلب اور کشش سے بچا رہا لیکن ذمہ داری اس کے سپرد کر دی گئی تو اس کے لیے وہ عظیم خوش خبری ہے جو حضرت عمرو بن العاص کی روایت کردہ حدیث (3574) میں بیان کی گئی ہے۔مسلمان کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ قضا کی ذمہ داری صرف اور صرف اسی صورت میں قبول کرے جب وہ فیصلہ وحی الہٰی پر مبنی قوانین اور انصاف کے مطابق کر سکتا ہو ان سے ہٹ کر دوسرے قوانین کے تحت جن سے عموماً انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے فیصلہ کرنے کا امکان ہو تو اس صورت میں یہ ذمہ داری قبول کرنا ہی حرام ہے۔(حدیث:3576‘3590‘3591)اگر کوئی انسان خود اس عہدے کا طلب گار ہو گا تو ظاہر ہے وہ اس عہدے کی مادی یا منصبی کشش ہی کی بنا پر اس کا خواہاں ہوگا رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو اس عہدہ کے لیے نا اہل قرار دیا ہے مادی کشش میں رشوت ستانی بدترین ہے اس سلسلے میں رشوت کے ساتھ ہدیے وغیرہ کنے کو بھی سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ”کسی دیہاتی کی شہری کے خلاف گواہی جائز نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
فائدہ: بدوی بادیہ سے ہے کہ خانہ بدوش کو کہتے ہیں۔ جو ایک جگہ کے ساکن نہیں ہوتے۔ بلکہ مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی بدوی سمجھ دار اور عدول ہو تو فی نفسہ اس کی گواہی معبتر ہوگی۔ خود رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے چاند کی رویئت میں بدوی کی شہادت قبول فرمائی۔ (أبودود، الصوم، باب في شھادة الواحد علی رؤیة ھلال رمضان) اس حدیث سے جو یہ بات سمجھائی گئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ بدوی عموما مستقل آبادیوں کے حالات عادات رسم ورواج اور طور طریقوں سے واقف نہیں ہوتے۔ نیز بڑے سادہ لوح ہوتے ہیں۔ اس لئے مشاہدے میں انھیں غلطی لگنے یاعدم فہم کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے کسی بستی یا شہر کے رہنے والے کے معاملے میں ان کی گواہی پراعتراض واقع ہوگا۔ اس سبب سے اس کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی۔ وہ معاملات جن کا فہم اہل بادیہ کے لئے آسان ہے۔ اس میں ان کی گواہی ہرطرح معتبر ہے۔ اس حدیث میں یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی بھی معاملے میں گواہی تب معتبر ہوگی۔ جب اس معاملے کے عمومی فہم کی استعداد موجود ہو۔ کسی خالص فنی معاملے میں عام انسا نوں کی گواہی معتبر نہ ہوگی۔ جب تک وہ اس معاملے کا فہم نہ رکھتا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”دیہاتی کی گواہی بستی اور شہر میں رہنے والے شخص کے خلاف جائز نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurayrah (RA): The Prophet (ﷺ) said: The testimony of a nomad Arab against a townsman is not allowable.