Abu-Daud:
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
(Chapter: Testimony with regard to breastfeeding)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3603.
جناب ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عقبہ بن حارث ؓ نے بیان کیا۔ اور مجھے یہ روایت میرے ایک اور ساتھی نے بھی عقبہ سے بیان کی اور اپنے ساتھی کی روایت مجھے زیادہ یاد ہے۔ کہا کہ میں نے ام یحیی بنت ابی اہاب سے شادی کی۔ تو ہمارے پاس ایک کالی عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے ان دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ تو میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا۔ تو آپ ﷺ نے مجھ سے منہ پھیر لیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بیشک وہ جھوٹی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تجھے کیا خبر؟ حالانکہ اس نے جو کہنا تھا کہہ دیا ہے۔ اس عورت (اپنی بیوی) کو چھوڑ دے۔“
تشریح:
فائدہ: رضاعت کے مسئلے میں بالخصوص اکیلی عورت کی گواہی اور خبر معتبر اورکافی ہے۔ جیسے کہ پیدائش کے وقت بچے کے زندہ ہونے کے بارے میں ایک دایہ کی گواہی معتبر اور کافی ہوتی ہے۔ تاہم خبر یا گواہی دینے والی کا معتمد اور موثوق ہونا شرط ہے۔ علمائے کرام نے خبر اور گواہی میں فرق کیا ہے۔ گواہی ہمیشہ حاکم اور قاضی کے روبرو ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ان مسائل کی تفصیلات میں مختلف ہائے نظر موجود ہیں۔
سنن ابوداود کی کتاب القضاء کا آغاز عمل قضا کی اہمیت‘ غرض مندوں اور مفاد پرستوں سے عمل قضا کو دور رکھنے اور فیصلہ کرنے کے حوالے سے اہم بنیادی اصول و آداب کے بیان سے ہوا اس کے بعد شہادت کے بارے میں انتہائی اہم اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ۔پھر وہ احادیث لائی گئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ شہادت کی عدم دستیابی کی صورت میں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اس کے بعد اس بارے میں روایات لائی گئیں کہ قرض وغیرہ کے معاملے میں حق دار کا حق ثابت ہو جانے کے بعد عملاً اس کی حق رسی کیسے کرائی جائے ‘اس کے بعد وکالت کا تذکرہ ہے اور آخر میں بعض انتہائی مشکل کیسوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر فیصلے کے ذریعے سے کئی انتہائی اہم اصول سامنے آتے ہیں جن کی قدم قدم پر جج کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ ذیلی کتاب بنیادی طور پر قضا اور آداب ِقضا کے متعلق ہے اس میں وہ اصول بیان کیے گئے ہیں جن کو آج کل قانون ضابطہ یا (Proedural Law) کی اساس سمجھا جاتا ہے اس حصے میں بالتفصیل قوانین کا بیان مقصود نہیں کیونکہ قوانین الگ الگ عنوانات سے بیان کر دیے گئے ہیں سول قوانین کا بیان کتا ب البیوع وغیرہ میں‘فوجداری قوانین کتاب الحدود میں ۔ اسی طرح میراث ‘نکاح و طلاق ‘ہبہ‘وصیت‘جنگ و امن وغیرہ کے قوانین اپنے اپنے متعلقہ عنوانات کے تحت بیان کر دیے گئے ہیں۔
٭منصب قضا کی اہمیت اور قاضی(judge) بننے کی صلاحیت : جج کا منصب ہمیشہ ایک پرُ وقار منصب سمجھا گیا۔ اس میں انسان کو ہر پیش ہونے والے معاملے میں بہت زیادہ اختیار بھی حاصل ہو جاتا ہے اس لیے یہ ایک ’’پرُ کشش ‘‘ ذمہ داری ہے اور اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ جو اس کی کشش کا شکار ہو جاتا ہے وہ ’’ذمہ داری‘‘ والے عنصر کو صحیح طور پر پیش نظر رکھنے میں ناکام رہتا ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان جس سے امام ابودادونے کتاب کے اس حصہ کا آغاز کیا ہے اس ذمہ داری کی سنگینی کو واضح کرتا ہے اگر کوئی انسان اس کی طلب اور کشش سے بچا رہا لیکن ذمہ داری اس کے سپرد کر دی گئی تو اس کے لیے وہ عظیم خوش خبری ہے جو حضرت عمرو بن العاص کی روایت کردہ حدیث (3574) میں بیان کی گئی ہے۔مسلمان کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ قضا کی ذمہ داری صرف اور صرف اسی صورت میں قبول کرے جب وہ فیصلہ وحی الہٰی پر مبنی قوانین اور انصاف کے مطابق کر سکتا ہو ان سے ہٹ کر دوسرے قوانین کے تحت جن سے عموماً انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے فیصلہ کرنے کا امکان ہو تو اس صورت میں یہ ذمہ داری قبول کرنا ہی حرام ہے۔(حدیث:3576‘3590‘3591)اگر کوئی انسان خود اس عہدے کا طلب گار ہو گا تو ظاہر ہے وہ اس عہدے کی مادی یا منصبی کشش ہی کی بنا پر اس کا خواہاں ہوگا رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو اس عہدہ کے لیے نا اہل قرار دیا ہے مادی کشش میں رشوت ستانی بدترین ہے اس سلسلے میں رشوت کے ساتھ ہدیے وغیرہ کنے کو بھی سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
جناب ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عقبہ بن حارث ؓ نے بیان کیا۔ اور مجھے یہ روایت میرے ایک اور ساتھی نے بھی عقبہ سے بیان کی اور اپنے ساتھی کی روایت مجھے زیادہ یاد ہے۔ کہا کہ میں نے ام یحیی بنت ابی اہاب سے شادی کی۔ تو ہمارے پاس ایک کالی عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے ان دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ تو میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا۔ تو آپ ﷺ نے مجھ سے منہ پھیر لیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بیشک وہ جھوٹی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تجھے کیا خبر؟ حالانکہ اس نے جو کہنا تھا کہہ دیا ہے۔ اس عورت (اپنی بیوی) کو چھوڑ دے۔“
حدیث حاشیہ:
فائدہ: رضاعت کے مسئلے میں بالخصوص اکیلی عورت کی گواہی اور خبر معتبر اورکافی ہے۔ جیسے کہ پیدائش کے وقت بچے کے زندہ ہونے کے بارے میں ایک دایہ کی گواہی معتبر اور کافی ہوتی ہے۔ تاہم خبر یا گواہی دینے والی کا معتمد اور موثوق ہونا شرط ہے۔ علمائے کرام نے خبر اور گواہی میں فرق کیا ہے۔ گواہی ہمیشہ حاکم اور قاضی کے روبرو ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ان مسائل کی تفصیلات میں مختلف ہائے نظر موجود ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عقبہ بن حارث نے اور میرے ایک دوست نے انہیں کے واسطہ سے بیان کیا اور مجھے اپنے دوست کی روایت زیادہ یاد ہے وہ (عقبہ) کہتے ہیں: میں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب سے شادی کی، پھر ہمارے پاس ایک کالی عورت آ کر بولی: میں نے تم دونوں (میاں، بیوی) کو دودھ پلایا ہے۱؎، میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے مجھ سے چہرہ پھیر لیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ عورت جھوٹی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں کیا معلوم؟ اسے جو کہنا تھا اس نے کہہ دیا، تم اسے اپنے سے علیحدہ کر دو۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے ایک مرضعہ (دودھ پلانے والی) کی گواہی کافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Amr ibn al-'As (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) said: The proviso of a loan combined with a sale is not allowable, nor two conditions relating to one transaction, nor the profit arising from something which is not in one's charge, nor selling what is not in your possession.