Abu-Daud:
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
(Chapter: Judgement on the basis of oath and one witness)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3611.
سلیمان بن بلال نے ربیعہ سے ابومصعب الزہری کی مذکورہ بالا سند سے اسی کے ہم معنی روایت کیا، سلیمان نے کہا کہ میں سہیل سے ملا اور ان سے یہ حدیث دریافت کی تو انہوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ مجھے ربیعہ نے آپ کے واسطے سے روایت کی ہے۔ تو انہوں نے کہا: اگر ربیعہ نے تمہیں بتایا ہے کہ اس نے مجھ سے روایت کیا ہے تو اسے بواسطہ ربیعہ مجھ سے روایت کرو۔
تشریح:
1۔ مدعی کے پاس جب ایک گواہ ہو تو مالی امور میں اس سے قسم لے کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ قسم دوسرے گواہ کے قائم مقام ہوگی۔ 2۔ محدث جب اپنی کسی روایت کو بھول جائے۔ اور بالجزم اور یقین سے کہے کہ یہ مجھ پر جھوٹ ہے یا میں نے اسے روایت نہیں کیا ہے۔ وغیرہ۔ تو ایسی روایت مردود ہوتی ہے۔ لیکن اگر محض احتمال کا اظہار کرتے ہوئے کہے مجھے ئیہ حدیث یاد نہیں یا مجھے معلوم نہیں اور پہلے دور میں سننے والا ثقہ راوی اس سے روایت کرے۔ تو اس کی روایت مقبول ہوتی ہے۔ مذکورہ اسناد اور واقعہ (من حدث ونسي) جس نے حدیث بیان کی اور (بعد میں) بھول گیا کی مثال ہے اور محدثین کی امانت علمی اور روایت کرنے میں احتیاط اور دقت پسندی کی دلیل ہے۔
سنن ابوداود کی کتاب القضاء کا آغاز عمل قضا کی اہمیت‘ غرض مندوں اور مفاد پرستوں سے عمل قضا کو دور رکھنے اور فیصلہ کرنے کے حوالے سے اہم بنیادی اصول و آداب کے بیان سے ہوا اس کے بعد شہادت کے بارے میں انتہائی اہم اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ۔پھر وہ احادیث لائی گئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ شہادت کی عدم دستیابی کی صورت میں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اس کے بعد اس بارے میں روایات لائی گئیں کہ قرض وغیرہ کے معاملے میں حق دار کا حق ثابت ہو جانے کے بعد عملاً اس کی حق رسی کیسے کرائی جائے ‘اس کے بعد وکالت کا تذکرہ ہے اور آخر میں بعض انتہائی مشکل کیسوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر فیصلے کے ذریعے سے کئی انتہائی اہم اصول سامنے آتے ہیں جن کی قدم قدم پر جج کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ ذیلی کتاب بنیادی طور پر قضا اور آداب ِقضا کے متعلق ہے اس میں وہ اصول بیان کیے گئے ہیں جن کو آج کل قانون ضابطہ یا (Proedural Law) کی اساس سمجھا جاتا ہے اس حصے میں بالتفصیل قوانین کا بیان مقصود نہیں کیونکہ قوانین الگ الگ عنوانات سے بیان کر دیے گئے ہیں سول قوانین کا بیان کتا ب البیوع وغیرہ میں‘فوجداری قوانین کتاب الحدود میں ۔ اسی طرح میراث ‘نکاح و طلاق ‘ہبہ‘وصیت‘جنگ و امن وغیرہ کے قوانین اپنے اپنے متعلقہ عنوانات کے تحت بیان کر دیے گئے ہیں۔
٭منصب قضا کی اہمیت اور قاضی(judge) بننے کی صلاحیت : جج کا منصب ہمیشہ ایک پرُ وقار منصب سمجھا گیا۔ اس میں انسان کو ہر پیش ہونے والے معاملے میں بہت زیادہ اختیار بھی حاصل ہو جاتا ہے اس لیے یہ ایک ’’پرُ کشش ‘‘ ذمہ داری ہے اور اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ جو اس کی کشش کا شکار ہو جاتا ہے وہ ’’ذمہ داری‘‘ والے عنصر کو صحیح طور پر پیش نظر رکھنے میں ناکام رہتا ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان جس سے امام ابودادونے کتاب کے اس حصہ کا آغاز کیا ہے اس ذمہ داری کی سنگینی کو واضح کرتا ہے اگر کوئی انسان اس کی طلب اور کشش سے بچا رہا لیکن ذمہ داری اس کے سپرد کر دی گئی تو اس کے لیے وہ عظیم خوش خبری ہے جو حضرت عمرو بن العاص کی روایت کردہ حدیث (3574) میں بیان کی گئی ہے۔مسلمان کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ قضا کی ذمہ داری صرف اور صرف اسی صورت میں قبول کرے جب وہ فیصلہ وحی الہٰی پر مبنی قوانین اور انصاف کے مطابق کر سکتا ہو ان سے ہٹ کر دوسرے قوانین کے تحت جن سے عموماً انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے فیصلہ کرنے کا امکان ہو تو اس صورت میں یہ ذمہ داری قبول کرنا ہی حرام ہے۔(حدیث:3576‘3590‘3591)اگر کوئی انسان خود اس عہدے کا طلب گار ہو گا تو ظاہر ہے وہ اس عہدے کی مادی یا منصبی کشش ہی کی بنا پر اس کا خواہاں ہوگا رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو اس عہدہ کے لیے نا اہل قرار دیا ہے مادی کشش میں رشوت ستانی بدترین ہے اس سلسلے میں رشوت کے ساتھ ہدیے وغیرہ کنے کو بھی سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
سلیمان بن بلال نے ربیعہ سے ابومصعب الزہری کی مذکورہ بالا سند سے اسی کے ہم معنی روایت کیا، سلیمان نے کہا کہ میں سہیل سے ملا اور ان سے یہ حدیث دریافت کی تو انہوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ مجھے ربیعہ نے آپ کے واسطے سے روایت کی ہے۔ تو انہوں نے کہا: اگر ربیعہ نے تمہیں بتایا ہے کہ اس نے مجھ سے روایت کیا ہے تو اسے بواسطہ ربیعہ مجھ سے روایت کرو۔
حدیث حاشیہ:
1۔ مدعی کے پاس جب ایک گواہ ہو تو مالی امور میں اس سے قسم لے کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ قسم دوسرے گواہ کے قائم مقام ہوگی۔ 2۔ محدث جب اپنی کسی روایت کو بھول جائے۔ اور بالجزم اور یقین سے کہے کہ یہ مجھ پر جھوٹ ہے یا میں نے اسے روایت نہیں کیا ہے۔ وغیرہ۔ تو ایسی روایت مردود ہوتی ہے۔ لیکن اگر محض احتمال کا اظہار کرتے ہوئے کہے مجھے ئیہ حدیث یاد نہیں یا مجھے معلوم نہیں اور پہلے دور میں سننے والا ثقہ راوی اس سے روایت کرے۔ تو اس کی روایت مقبول ہوتی ہے۔ مذکورہ اسناد اور واقعہ (من حدث ونسي) جس نے حدیث بیان کی اور (بعد میں) بھول گیا کی مثال ہے اور محدثین کی امانت علمی اور روایت کرنے میں احتیاط اور دقت پسندی کی دلیل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابومصعب ہی کی سند سے ربیعہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ سلیمان کہتے ہیں میں نے سہیل سے ملاقات کی اور اس حدیث کے متعلق ان سے پوچھا: تو انہوں نے کہا: میں اسے نہیں جانتا تو میں نے ان سے کہا: ربیعہ نے مجھے آپ کے واسطہ سے اس حدیث کی خبر دی ہے تو انہوں نے کہا: اگر ربیعہ نے تمہیں میرے واسطہ سے خبر دی ہے تو تم اسے بواسطہ ربیعہ مجھ سے روایت کرو۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The tradition mentioned above has also been transmitted by Rabi'ah through the chain of Abu Mus'ab and to the same effect. Sulaiman said: I then met Suhail and asked him about this tradition. He said: I do not know it. I said to him: Rabi'ah transmitted it to me from you. He said: If Rabi'ah transmitted it to you from me, then retransmit it from Rabi'ah on my authority.