باب: عورت اپنے ایام حیض میں استعمال ہونے والے کپڑے کو دھوئے
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: A Woman Washes Her Garment That She Wears During Her Menses [To Pray In])
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
363.
سیدہ ام قیس بنت محصن ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے خون حیض کے متعلق دریافت کیا جو کہ کپڑے کہ لگ جاتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا ”اسے کسی لکڑی سے اکھیڑو پھر بیری کے پتے ملے پانی سے دھو ڈالو۔“
تشریح:
خون حیض نجس ہے، اس کو اہتمام سےصاف کرنا چاہیے کہ کوئی ذرا سا اثر باقی نہ رہے۔ سادہ پانی سے دھونا بھی کافی ہے، مگر بیری کے پتے ملا پانی مزید نظافت کے لیے ہے۔ جیسے کہ آج کل صابن سوڈے سے یہ کام لیا جاتا ہے۔ کپڑے پر داغ باقی رہ جانے کا کوئی حرج نہیں۔
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدہ ام قیس بنت محصن ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے خون حیض کے متعلق دریافت کیا جو کہ کپڑے کہ لگ جاتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا ”اسے کسی لکڑی سے اکھیڑو پھر بیری کے پتے ملے پانی سے دھو ڈالو۔“
حدیث حاشیہ:
خون حیض نجس ہے، اس کو اہتمام سےصاف کرنا چاہیے کہ کوئی ذرا سا اثر باقی نہ رہے۔ سادہ پانی سے دھونا بھی کافی ہے، مگر بیری کے پتے ملا پانی مزید نظافت کے لیے ہے۔ جیسے کہ آج کل صابن سوڈے سے یہ کام لیا جاتا ہے۔ کپڑے پر داغ باقی رہ جانے کا کوئی حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام قیس بنت محصن ؓ کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے حیض کے خون کے بارے میں جو کپڑے میں لگ جائے پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے کسی لکڑی سے رگڑ کر چھڑا دو، اور پانی اور بیر کی پتی سے اسے دھو ڈالو۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Umm Qays daughter of Mihsan (RA): I asked the Prophet (ﷺ) about the blood of menstruation on the clothe. He said: Erase it off with a piece of wood and then wash it away with water and the leaves of the lote-tree.