Abu-Daud:
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
(Chapter: Regarding judicial matters)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3634.
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم سے کوئی بھائی اجازت چاہے کہ تمہاری دیوار میں لکڑی گاڑ لے، تو اسے مت روکو۔“ تو سامعین نے اپنی گردنیں جھکا لیں۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہنے لگے: کیا بات ہے کہ تم اس سے اعراض کرنے لگے ہو۔ میں اسے تمہارے کندھوں پر ٹکاؤں گا۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ یہ روایت ابن ابی خلف کی ہے اور کامل ہے۔
تشریح:
فائدہ: ہمسائیگی کے لازمی حقوق میں سے یہ ہے کہ احسان کا معاملہ کرتے ہوئے درمیانی دیوار پر شہتیر یا کڑیاں رکھنے اور کھونٹی گاڑنے سے ہرگز نہ روکا جائے۔ مگر بنیادی شرط یہ ہوگی کہ کوئی کسی کےلئے ضرر اور ظلم کا باعث نہ بنے۔ ظالم لوگ اس رعایت کی بنا پر حق ملکیت کا دعوی کرنے لگے ہیں۔ درج ذیل روایت ملاحظہ ہو۔
سنن ابوداود کی کتاب القضاء کا آغاز عمل قضا کی اہمیت‘ غرض مندوں اور مفاد پرستوں سے عمل قضا کو دور رکھنے اور فیصلہ کرنے کے حوالے سے اہم بنیادی اصول و آداب کے بیان سے ہوا اس کے بعد شہادت کے بارے میں انتہائی اہم اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ۔پھر وہ احادیث لائی گئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ شہادت کی عدم دستیابی کی صورت میں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اس کے بعد اس بارے میں روایات لائی گئیں کہ قرض وغیرہ کے معاملے میں حق دار کا حق ثابت ہو جانے کے بعد عملاً اس کی حق رسی کیسے کرائی جائے ‘اس کے بعد وکالت کا تذکرہ ہے اور آخر میں بعض انتہائی مشکل کیسوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر فیصلے کے ذریعے سے کئی انتہائی اہم اصول سامنے آتے ہیں جن کی قدم قدم پر جج کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ ذیلی کتاب بنیادی طور پر قضا اور آداب ِقضا کے متعلق ہے اس میں وہ اصول بیان کیے گئے ہیں جن کو آج کل قانون ضابطہ یا (Proedural Law) کی اساس سمجھا جاتا ہے اس حصے میں بالتفصیل قوانین کا بیان مقصود نہیں کیونکہ قوانین الگ الگ عنوانات سے بیان کر دیے گئے ہیں سول قوانین کا بیان کتا ب البیوع وغیرہ میں‘فوجداری قوانین کتاب الحدود میں ۔ اسی طرح میراث ‘نکاح و طلاق ‘ہبہ‘وصیت‘جنگ و امن وغیرہ کے قوانین اپنے اپنے متعلقہ عنوانات کے تحت بیان کر دیے گئے ہیں۔
٭منصب قضا کی اہمیت اور قاضی(judge) بننے کی صلاحیت : جج کا منصب ہمیشہ ایک پرُ وقار منصب سمجھا گیا۔ اس میں انسان کو ہر پیش ہونے والے معاملے میں بہت زیادہ اختیار بھی حاصل ہو جاتا ہے اس لیے یہ ایک ’’پرُ کشش ‘‘ ذمہ داری ہے اور اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ جو اس کی کشش کا شکار ہو جاتا ہے وہ ’’ذمہ داری‘‘ والے عنصر کو صحیح طور پر پیش نظر رکھنے میں ناکام رہتا ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان جس سے امام ابودادونے کتاب کے اس حصہ کا آغاز کیا ہے اس ذمہ داری کی سنگینی کو واضح کرتا ہے اگر کوئی انسان اس کی طلب اور کشش سے بچا رہا لیکن ذمہ داری اس کے سپرد کر دی گئی تو اس کے لیے وہ عظیم خوش خبری ہے جو حضرت عمرو بن العاص کی روایت کردہ حدیث (3574) میں بیان کی گئی ہے۔مسلمان کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ قضا کی ذمہ داری صرف اور صرف اسی صورت میں قبول کرے جب وہ فیصلہ وحی الہٰی پر مبنی قوانین اور انصاف کے مطابق کر سکتا ہو ان سے ہٹ کر دوسرے قوانین کے تحت جن سے عموماً انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے فیصلہ کرنے کا امکان ہو تو اس صورت میں یہ ذمہ داری قبول کرنا ہی حرام ہے۔(حدیث:3576‘3590‘3591)اگر کوئی انسان خود اس عہدے کا طلب گار ہو گا تو ظاہر ہے وہ اس عہدے کی مادی یا منصبی کشش ہی کی بنا پر اس کا خواہاں ہوگا رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو اس عہدہ کے لیے نا اہل قرار دیا ہے مادی کشش میں رشوت ستانی بدترین ہے اس سلسلے میں رشوت کے ساتھ ہدیے وغیرہ کنے کو بھی سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم سے کوئی بھائی اجازت چاہے کہ تمہاری دیوار میں لکڑی گاڑ لے، تو اسے مت روکو۔“ تو سامعین نے اپنی گردنیں جھکا لیں۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہنے لگے: کیا بات ہے کہ تم اس سے اعراض کرنے لگے ہو۔ میں اسے تمہارے کندھوں پر ٹکاؤں گا۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ یہ روایت ابن ابی خلف کی ہے اور کامل ہے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: ہمسائیگی کے لازمی حقوق میں سے یہ ہے کہ احسان کا معاملہ کرتے ہوئے درمیانی دیوار پر شہتیر یا کڑیاں رکھنے اور کھونٹی گاڑنے سے ہرگز نہ روکا جائے۔ مگر بنیادی شرط یہ ہوگی کہ کوئی کسی کےلئے ضرر اور ظلم کا باعث نہ بنے۔ ظالم لوگ اس رعایت کی بنا پر حق ملکیت کا دعوی کرنے لگے ہیں۔ درج ذیل روایت ملاحظہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اس کی دیوار میں لکڑی گاڑنے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے۔“ یہ سن کر لوگوں نے سر جھکا لیا تو ابوہریرہ ؓ نے کہا: کیا بات ہے جو میں تمہیں اس حدیث سے اعراض کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، میں تو اسے تمہارے شانوں کے درمیان ڈال ہی کر رہوں گا (یعنی اسے تم سے بیان کر کے ہی چھوڑوں گا)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ابن ابی خلف کی حدیث ہے اور زیادہ کامل ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: When one of you asks permission for inserting a wooden peg in his wall, he should not prevent him. So they (the people) lowered down their heads. Then he (Abu Hurairah) said: What is the matter? I am seeing you are neglecting (to hear this tradition), I shall spread it among you. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said:This is the tradition of Ibn Abi Khalaf is more perfect.