Abu-Daud:
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
(Chapter: Regarding judicial matters)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3640.
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ دو آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جھگڑا لائے۔ ان کا ایک کھجور کے درخت کے اردگرد احاطے (زمین کی حدود جو اس درخت کے ساتھ لازم اور ملحق ہو سکتی ہے) کے بارے میں تنازع تھا۔ تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس درخت کا (طول) ناپا جائے۔ اسے ناپا گیا تو وہ سات ہاتھ ہوا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ وہ پانچ ہاتھ ہوا۔ تو آپ ﷺ نے اس کا فیصلہ فرما دیا۔ راوی حدیث عبدالعزیز بن محمد نے کہا: پس آپ ﷺ نے اس درخت کی ایک چھڑی کے بارے میں حکم دیا، اسی سے اسے ناپا گیا۔
تشریح:
فائدہ: کسی کا کہیں درخت ہو تو اس کے طول برابر اس کے اطراف میں اس کا خاص احاطہ ہوگا جس میں دوسرا دخل نہیں دے سکتا۔
سنن ابوداود کی کتاب القضاء کا آغاز عمل قضا کی اہمیت‘ غرض مندوں اور مفاد پرستوں سے عمل قضا کو دور رکھنے اور فیصلہ کرنے کے حوالے سے اہم بنیادی اصول و آداب کے بیان سے ہوا اس کے بعد شہادت کے بارے میں انتہائی اہم اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ۔پھر وہ احادیث لائی گئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ شہادت کی عدم دستیابی کی صورت میں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اس کے بعد اس بارے میں روایات لائی گئیں کہ قرض وغیرہ کے معاملے میں حق دار کا حق ثابت ہو جانے کے بعد عملاً اس کی حق رسی کیسے کرائی جائے ‘اس کے بعد وکالت کا تذکرہ ہے اور آخر میں بعض انتہائی مشکل کیسوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر فیصلے کے ذریعے سے کئی انتہائی اہم اصول سامنے آتے ہیں جن کی قدم قدم پر جج کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ ذیلی کتاب بنیادی طور پر قضا اور آداب ِقضا کے متعلق ہے اس میں وہ اصول بیان کیے گئے ہیں جن کو آج کل قانون ضابطہ یا (Proedural Law) کی اساس سمجھا جاتا ہے اس حصے میں بالتفصیل قوانین کا بیان مقصود نہیں کیونکہ قوانین الگ الگ عنوانات سے بیان کر دیے گئے ہیں سول قوانین کا بیان کتا ب البیوع وغیرہ میں‘فوجداری قوانین کتاب الحدود میں ۔ اسی طرح میراث ‘نکاح و طلاق ‘ہبہ‘وصیت‘جنگ و امن وغیرہ کے قوانین اپنے اپنے متعلقہ عنوانات کے تحت بیان کر دیے گئے ہیں۔
٭منصب قضا کی اہمیت اور قاضی(judge) بننے کی صلاحیت : جج کا منصب ہمیشہ ایک پرُ وقار منصب سمجھا گیا۔ اس میں انسان کو ہر پیش ہونے والے معاملے میں بہت زیادہ اختیار بھی حاصل ہو جاتا ہے اس لیے یہ ایک ’’پرُ کشش ‘‘ ذمہ داری ہے اور اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ جو اس کی کشش کا شکار ہو جاتا ہے وہ ’’ذمہ داری‘‘ والے عنصر کو صحیح طور پر پیش نظر رکھنے میں ناکام رہتا ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان جس سے امام ابودادونے کتاب کے اس حصہ کا آغاز کیا ہے اس ذمہ داری کی سنگینی کو واضح کرتا ہے اگر کوئی انسان اس کی طلب اور کشش سے بچا رہا لیکن ذمہ داری اس کے سپرد کر دی گئی تو اس کے لیے وہ عظیم خوش خبری ہے جو حضرت عمرو بن العاص کی روایت کردہ حدیث (3574) میں بیان کی گئی ہے۔مسلمان کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ قضا کی ذمہ داری صرف اور صرف اسی صورت میں قبول کرے جب وہ فیصلہ وحی الہٰی پر مبنی قوانین اور انصاف کے مطابق کر سکتا ہو ان سے ہٹ کر دوسرے قوانین کے تحت جن سے عموماً انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے فیصلہ کرنے کا امکان ہو تو اس صورت میں یہ ذمہ داری قبول کرنا ہی حرام ہے۔(حدیث:3576‘3590‘3591)اگر کوئی انسان خود اس عہدے کا طلب گار ہو گا تو ظاہر ہے وہ اس عہدے کی مادی یا منصبی کشش ہی کی بنا پر اس کا خواہاں ہوگا رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو اس عہدہ کے لیے نا اہل قرار دیا ہے مادی کشش میں رشوت ستانی بدترین ہے اس سلسلے میں رشوت کے ساتھ ہدیے وغیرہ کنے کو بھی سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ دو آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جھگڑا لائے۔ ان کا ایک کھجور کے درخت کے اردگرد احاطے (زمین کی حدود جو اس درخت کے ساتھ لازم اور ملحق ہو سکتی ہے) کے بارے میں تنازع تھا۔ تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس درخت کا (طول) ناپا جائے۔ اسے ناپا گیا تو وہ سات ہاتھ ہوا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ وہ پانچ ہاتھ ہوا۔ تو آپ ﷺ نے اس کا فیصلہ فرما دیا۔ راوی حدیث عبدالعزیز بن محمد نے کہا: پس آپ ﷺ نے اس درخت کی ایک چھڑی کے بارے میں حکم دیا، اسی سے اسے ناپا گیا۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: کسی کا کہیں درخت ہو تو اس کے طول برابر اس کے اطراف میں اس کا خاص احاطہ ہوگا جس میں دوسرا دخل نہیں دے سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ دو شخص ایک کھجور کے درخت کی حد کے سلسلے میں جھگڑا لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، ایک روایت میں ہے آپ نے اس کے ناپنے کا حکم دیا جب ناپا گیا تو وہ سات ہاتھ نکلا، اور دوسری روایت میں ہے وہ پانچ ہاتھ نکلا تو آپ نے اسی کا فیصلہ فرما دیا۔ عبدالعزیز کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اسی درخت کی ایک ٹہنی سے پیمائش کرنے کے لیے کہا تو پیمائش کی گئی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id al-Khudri (RA): Two men brought their dispute about the precincts of a palm-tree to the Apostle of Allah (ﷺ). According to a version of this tradition, he ordered to measure and it was measured. It was found seven yards. According to another version, it was found five yards. He made a decision according to that. Abdul Aziz (RA) said: He ordered to measure with a branch of its branches. It was then measured.