مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3688.
مالک بن ابی مریم کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن غنم ؓ آئے اور طلاء (انگور کے شیرے کو پکا لیا جائے یہاں تک کہ دو حصے خشک ہو جائے اور ایک حصہ باقی رہ جائے تو اسے طلاء کہتے ہیں) کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا: سیدنا ابو مالک اشعری ؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ ﷺ فرماتے تھے: ”(ایک وقت آئے گا کہ) میری امت کے کچھ لوگ شراب پیئں گے اور اس کا نام کچھ اور رکھ لیں گے۔“
تشریح:
فائدہ: (دازی) ایک خاص قسم کا دانہ ہے۔ جو نبیذ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جس سے اس میں شدت آجاتی ہے۔ اور نشہ آور شراب بن جاتی ہے۔
٭الأطعمة کی تعریف :’’اطعمة‘‘ طعام کی جمع ہے ،قاموس میں اس کے معنی کیے گئے ہیں :’’اَلْبُرُّ وَمَا يُو كَلُ‘‘ گندم اور جو چیز کھائی جاتی ہے اسے ’’طعام‘‘ کہا جاتا ہے بعض علمائے لغت کے نزدیک ’’طعام ‘‘ سے مراد صرف کھنانا ہی نہیں بلکہ بعض اوقات پینے والی چیز پر بھی ’’طعام‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے ،جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي) ’’بےشک اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے جس نے اس پانی پی لیا وہ مجھ سے نہیں اور جس نے اس کا پانی نہ چکھا ‘تو یقیناً وہ میرا ہے ۔‘‘(البقرہ:249)
اسی طرح ارشاد نبوی ہے [زَمْزَمُ طَعَأمُ طُعْمٍ وَ شِفَاءُ سُقْمٍ]
’’زمزم کھانے والے کا کھانا ہے اور بیمار کے لیے شفا ہے ۔‘‘(مجمع الزوائد:3/286 والمعجم الکبیر للطبرانی:11/98)
٭أشربة کی لغوی تعریف :’’ أشربة ‘‘ شراب کی جمع ہے ‘یعنی ہر بہنے والی چیز جسے پیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے ،ہمارے ہاں اُسے مشروب کہا جاتا ہے۔
٭کھانے پینے کی مشروعیت :اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے بے شمار نعمتیں بطور خوراک پیدا کی ہیں ۔پھر مزید رحمت فرماتے ہوئے ہر اس کھانے ‘پینے کی چیز کو حرام قرار دیا جو انسانی صحت اور عقل کے لیے نقصان دہ تھی اور ہر وہ چیز جو مفید تھی اسے حلال رکھا‘ خود وہ دانے ہوں ‘پھل ہوں یا جانوروں کی شکل میں ہوں،لہذا رشاد ربانی ہے () ’’اللہ تعالیٰ کے رزق سے کھاؤ اور پیو۔‘‘(البقرہ:249)
کھانے اور پینے کا بنیادی مقصد انسانی بقا ہے تا کہ انسان اپنے رب کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے ہر دم تیار ہو ۔ اس کی صحت اس کا بھر پور ساتھ دے تا کہ وہ اطاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکے اس لیے صرف حلال اور مفید چیزیں کھانے کی پابندی عائد کر دی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے(يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا)
’’اے لوگو!تم ان چیزوں میں سے کھاؤ جو زمین میں حلال اور پاکیزہ ہیں۔‘‘(البقرہ:168)
رحمت دو عالم ﷺ نے امت کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا :
[ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَالبَسُوا وَتَصَدَّقُوا، فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلاَ مَخِيلَةٍ...] ’’کھاؤ پیو اور صدقہ خیرات کرو‘بغیر اسراف و تکبر و غرور کیے لباس پہنو ،کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمتوں کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے ۔‘‘(مسند احمد:2/181‘182 نیز امام بخاری نے بھی اسے کتاب اللباس کے شروع میں معلقاً بیان کیا ہے)
٭کھانے اور پینے کے چند نبوی آداب: کھانے اور پینے کا بنیادی قانون یہ ہے کہ وہ چیز حلال اور پاکیزہ ہو ، ارشاد نبوی ہے:[ كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ، وَكُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ.](صحيح مسلم، الأشربة ،باب بيان ان كل مسكر خمر وان كل خمر حرام ، حديث:2003)’’ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔‘‘
٭جن چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دے دیا ہے ان سے مکمل اجتناب کرنا ضروری ہے مثلاً مردہ جانور کا گوشت کھانا ‘خنزیر‘ ذبح کے وقت بہنے والا خون ‘قبروں اور بتوں کی نذر کیا جانے والا کھانا اور جانور ‘ہر کچلی اور پنجے سے شکار کرنے والا جانور وغیرہ۔
٭کھانے اور پینے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تقویت ارو بھوک مٹانا ہو تو یہ باعث اجر بن جاتا ہے ۔
٭کھانے اور پینے سے پہلے بسم اللہ اور فارغ ہو کر االحمداللہ یا دیگر مسنون دعائیں پڑھنا مستحب ہے ۔
٭کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا اور بیٹھ کر کھانا افضل و بہتر ہے۔
٭کھانے میں عیب نکالنا اور باتیں بنانا غلط ہے ‘ہاں اگر طبیعت نہ مانے تو نہ کھائے۔
٭کھانا دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھانا چاہیے ،کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے ۔
٭اگر کھانے کے دوران میں لقمہ گر جائے تو اسے صاف کر کے کھا لینا چاہیے۔
٭کھانے کی دعوت قبول کرنی چاہیے۔
٭اگر چند افراد مل کر کھانا کھا رہے ہوں تو ان کا خیال رکھنا چاہیے۔
٭کھانے کو ٹھنڈا کر نے کے لیے پھونکیں مارنا درست نہیں۔
٭ٹیک لگا کر یا لیٹ کر کھانا درست نہیں۔
٭ملازموں اور خادموں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا افضل ہے ‘ورنہ انہیں کھانے میں سے کچھ نہ کچھ ضرور دینا چاہیے۔
٭کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاپ لینا سنت ہے ، البتہ دھونا بھی درست ہے ۔
٭دعوت کرنے والے کے حق میں دعا کرنی چاہیے۔
٭جن جانوروں کا گوشت کھایا نہیں جاتا ان کا دودھ پینا بھی درست ہے۔
٭تمباکو ‘سگریٹ ‘افیون‘ اور ہیرون وغیرہ سخت حرام ہیں-
٭ایسا جوس جس میں جوش اور نشہ پیدا ہو چکا اسے پینا حرام ہے۔
٭بوقت ضرورت کھڑے ہو کر پینا درست ہے۔
٭مشروب کو تین سانسوں میں پینا سنت ہے ‘ہر بار منہ برتن سے ہٹا کر سانس لینا چاہیے
٭اگر برتن میں کوئی چیز نظر آئے تو اسے ہاتھ سے یا مشروب بہا کر نکالنا چاہیے ‘پھونک مارنا ٹھیک نہیں۔
٭کھانا یا مشروب پیش کرے وقت دائیں جانب سے شروع کرنا چاہیے۔
٭مشروب پیش کرنے والا سب کے آخر میں خود نوش کرے۔
مالک بن ابی مریم کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن غنم ؓ آئے اور طلاء (انگور کے شیرے کو پکا لیا جائے یہاں تک کہ دو حصے خشک ہو جائے اور ایک حصہ باقی رہ جائے تو اسے طلاء کہتے ہیں) کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا: سیدنا ابو مالک اشعری ؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ ﷺ فرماتے تھے: ”(ایک وقت آئے گا کہ) میری امت کے کچھ لوگ شراب پیئں گے اور اس کا نام کچھ اور رکھ لیں گے۔“
حدیث حاشیہ:
فائدہ: (دازی) ایک خاص قسم کا دانہ ہے۔ جو نبیذ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جس سے اس میں شدت آجاتی ہے۔ اور نشہ آور شراب بن جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مالک بن ابی مریم کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن غنم ہمارے پاس آئے تو ہم نے ان سے طلاء۱؎ کا ذکر کیا، انہوں نے کہا: مجھ سے ابو مالک اشعری ؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: ”میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے لیکن اس کا نام شراب کے علاوہ کچھ اور رکھ لیں گے۲؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: طلاء: انگور سے بنا ہوا ایک قسم کا شیرہ ہے۔ ۲؎: جیسے اس زمانے میں تاڑی اور بھانگ استعمال کرنے والے اسے شراب نہیں سمجھتے حالانکہ ہر نشہ لانے والی چیز شراب ہے اور وہ حرام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: An old man of the people of Wasit narrated from Abu Mansur al-Harith bin Mansur saying: I heard Sufyan Al-Thawri who was asked about al-dadhi. He said: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: Some of my people will assuredly drink wine calling it by another name.