Abu-Daud:
Medicine (Kitab Al-Tibb)
(Chapter: The evil eye)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3880.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جس شخص کی نظر لگتی اسے حکم دیا جاتا تھا کہ وضو کر کے (وضو کا پانی) دے، پھر اس سے بیمار کو (جسے نظر لگی ہو) غسل کرایا جاتا تھا۔
تشریح:
اگر انسان کسی دوسرے کے لیئے نیک خواہشات کا اظہار کرے تو نیک خواہش کا مُثبت اثر دوسرے پر ہوتا ہے۔ اسی طرح بری خواہش حسد وغیرہ کے منفی اثرات بھی شدت سے دوسرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ جدید نفسیات میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ ایک انسان اپنے ارادے، خواہش اور توجہ کے ذریعےسے دوسرے پر بہت جلد اثرانداز ہو سکتا ہے۔ نظر لگنے کی صورت بھی یہی ہے کہ کسی کی خوبی دیکھ کر بعض نفوس میں جذبہ ِ حسد پیدا ہو جاتا ہے، اگر وہ شدید ہو اور حسد محسوس کرنے والا سخت اور قوی ارادے کا رجحان رکھتا ہوتو اس حسد کی وجہ سے دوسرے پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عموماََ چونکہ دوسرے کی خوبیاں آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں اور دیکھتے ہی فوراََ حسد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اسی لیئے اس کو اکثر زبانوں میں نظر لگنے یا اس کے ہم معنی الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حافظ ابن القیمؒ کی کتاب الطب النبوی کے انگریزی ترجمے کے ایڈیٹر نو مسلم سکالر عبدلرحمن عبداللہ (سابقہ ریمنڈ جے مینڈیرولا فورڈ ہیم یونیورسٹی، یو- ایس -اے) نے اس حوالے سے ایک دلچسپ نوٹ لکھا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کی برائی کی قوت مختلف چیزوں یا لولوگوں کو خفیہ طور پر اپنا آلہ کار بنا کر ان کے ذریعے سے انسانوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ مغربی معاشرے میں اس کا مظاہرہ سکول کے کمسن بچوں کی طرف سے اپنے ہم جماعتوں کے اجتماعی قتل ایک انسان کی طرف سے بغیر دُشمنی کے یکے بعد دیگرے بیسیو قتل، بچوں پر مجرمانہ تشدد اور ایسی فلموں کی صورت میں سامنے آتا ہے جس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیئےانسانوں کو واقعتاَ قتل کر کے فلمیں (Snuff Movies) بنائی جاتی ہیں۔ اگر یہ نہ مانا جائے کہ برائی کی قوت انسان کو اپنا آلہ کار بنا کر یہ کام کراتی ہے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ سب کچھ انسان کی اپنی فطرت میں شامل ہے۔ مسلمان کو یہی بتایا گیا ہے کہ برائی کی ان قوتوں سے اللہ کی پناہ حاصل کریں۔ (Medicine of Prophet by Ibn- Qayyim Al-Jauziyah, foot note 157) رسول اللہﷺ نے اس غرض سے بہت سی دُعائیں بتائی اور مانگی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ بھی حکم ہے کہ جس کسی کو نظر لگ جا تی ہے وہ اچھی چیز یا انسان کو دیکھتے ہی اس کے لیئے برکت کی دُعا کرے۔ اگر کسی شخص پر نظرِ بد کے اثرات شدید ہوں تو اس کا علاج یہ بتایا گیا ہے کہ کس شخص کی نظر لگی ہو وہ وضو کرے اور تہہ بند وغیرہ کا وہ حصہ جو کمر کے ساتھ لگا ہوتا ہے، اسے دھوئے اور یہ مستعمل پانی متاثرہ شخص پر پھینکا جائے۔ ابو دائود کی یہ حدیث اگرچہ سندََ ضعیف ہے، لیکن اس کی مؤید صحیح روایتیں موجود ہیں جس طرح کے موطا کی روایت جس کا اُپر حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ ایک روحانی علاج ہے۔ یہ کیسے کامیاب ہوتا ہے، اس کا جاننا ضرہری نہیں، لیکن اتنی بات سمجھی جا سکتی ہے کہ وضو کے ذریعے سے انسان کو عمدَ یا خطاَ سرزد ہونے والے منفی امور کے اثرات سے نجات حاصل ہو جاتی ہے۔ ان منفی امور کے نتائج بد سے پناہ حاصل کرنے کا ایک طریق ہے کہ جس کی نظر لگ گئی ہے، اس نے جب خود وضو کے ذریعے سے ان امور سے پناہ حاصل کی اور وضو کے پانی نے انکا ازالہ کردیا تو جس دوسرے انسان پر اس کے منفی جذبے کا اثر ہوا اگر وہ اپنے اُپر یہی پانی گرا لے تو یہ اثر بدرجہ اولیٰ زائل ہو جائے گا۔
الطب کی تعریف: لغت میں طب کے معنی ذہنی وجسمانی علاج اور دوا دارو کے ہیں۔
اللہ تعالی نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔اسے تمام مخلوقات سے اشرف بنا کرتمام مخلوقات کو اس کے تا بع فرمان بنا دیا ہے۔ انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اپنی عبادت قرار دیا ہے۔ اللہ تعا لی کی عبادت میں ہمہ وقت مصروف رہنے کے لیئےصحت و تندرستی کی اشدضرورت تھی لہذاپروردگارِ عالم نے بے شمار نعمتیں پیدا کیں حلال اور مفید اشیاء کو کھانے کی اجازت دے کر مضرِصحت ،مضرِعقل، مضرِعزت وآبرواشیاء سے منع کردیا۔البتہ پھر بھی اگر اللہ ےتعالی کی مشیت سے بیماری آجائےتو اس کا علاج کرنا مشروع ہے۔ اللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج بھی پیدا کیا ہے۔ ‘جیسا کہ فرمان نبوی ﷺ ہے [مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً](صحيح البخارى ،الطب،باب ما انزل الله داء....حديث:5678)’’اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی شفا )علاج اور دوا) نازل کی ہے۔‘‘ بیماری کے موافق دوا استعمال اللہ تعالیٰ کی مشیت سے سفا کا باعث بنتا ہے ‘لہذا ہر شخص کو صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل چیزوں کو مد نظر رکھنا چاہیے : 1 صحت کی حفاظت2 مضر صحت چیزوں سے بچاؤ3 فاسد مادوں کا اخراج ۔
ان تین چیزوں کو طب اسلامی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ان کا ذکر قرآن مجید میں بھی اشارتاً موجود ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے (وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ)(البقرہ :185)’’جو شخص بیمار ہو یا مسافر ہو تو وہ (روزوں کی) گنتی دیگر ایام میں پوری کر لے‘‘
چونکہ بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے بڑھنے کا خدشہ تھا نیز سفر چونکہ تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرہ کا سبب تھا لہذا ان دو حالتو ں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی تا کہ انسانی صحت کی حفاظت ممکن بنائی جا سکے۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے (وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ) (النساء:29)’’تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کر و‘‘ اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیممّ کی مشروعیت کا ستنباط کیا گیا ہے ‘چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال مضر صحت ہو سکتا تھا اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے ۔
تیسرے مقام پر ارشاد ہے (أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ)(البقرہ:196)’’یا (محرم کے) سر میں تکلیف ہو تو وہ فدیہ دے(اور سرمنڈ والے۔‘‘)اب اس آیت میں محرم شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دے دی گئی تا کہ فاسدوں سے نجات حاصل ہو سکے جو کہ صحت کے لیے مضر ہیں اس طرح سے شریعت نے انسانی صحت کا مکمل خیال رکھا ہے ۔
٭طب نبویﷺ کے چند لاجواب علاج :طب نبوی میں ایسے نادر اور بے مثال علاج موجود ہیں جو متعدد بیماریوں کا شافی علاج ہیں۔
1 زمزم :ارشاد نبویﷺ ہے[مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ](سنن ابن ماجہ ‘المناسک ‘باب الشرب من زمزم‘حدیث :3062)’’زمزم کو جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے ۔‘‘
بے شمار لوگ اس نسخے سے موذی امراض سے نجات پا چکے ہیں ۔
2شہد :ارشاد باری تعالیٰ ہے (يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ)(النحل:69)’’ان کے پیٹ سے مشروب نکلتا ہے ‘جس کے رنگ مختلف ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے ۔‘‘
3کلونجی:رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے [فِي الحَبَّةِ السَّوْدَاءِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ، إِلَّا السَّامَ] ( صحیح البخاری‘الطب ‘باب الحبۃ السواداء حدیث :5688)’’سیاہ دانے (کلونجی) میں موت کے سوا ہر بیماری کی شفا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جس شخص کی نظر لگتی اسے حکم دیا جاتا تھا کہ وضو کر کے (وضو کا پانی) دے، پھر اس سے بیمار کو (جسے نظر لگی ہو) غسل کرایا جاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اگر انسان کسی دوسرے کے لیئے نیک خواہشات کا اظہار کرے تو نیک خواہش کا مُثبت اثر دوسرے پر ہوتا ہے۔ اسی طرح بری خواہش حسد وغیرہ کے منفی اثرات بھی شدت سے دوسرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ جدید نفسیات میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ ایک انسان اپنے ارادے، خواہش اور توجہ کے ذریعےسے دوسرے پر بہت جلد اثرانداز ہو سکتا ہے۔ نظر لگنے کی صورت بھی یہی ہے کہ کسی کی خوبی دیکھ کر بعض نفوس میں جذبہ ِ حسد پیدا ہو جاتا ہے، اگر وہ شدید ہو اور حسد محسوس کرنے والا سخت اور قوی ارادے کا رجحان رکھتا ہوتو اس حسد کی وجہ سے دوسرے پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عموماََ چونکہ دوسرے کی خوبیاں آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں اور دیکھتے ہی فوراََ حسد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اسی لیئے اس کو اکثر زبانوں میں نظر لگنے یا اس کے ہم معنی الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حافظ ابن القیمؒ کی کتاب الطب النبوی کے انگریزی ترجمے کے ایڈیٹر نو مسلم سکالر عبدلرحمن عبداللہ (سابقہ ریمنڈ جے مینڈیرولا فورڈ ہیم یونیورسٹی، یو- ایس -اے) نے اس حوالے سے ایک دلچسپ نوٹ لکھا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کی برائی کی قوت مختلف چیزوں یا لولوگوں کو خفیہ طور پر اپنا آلہ کار بنا کر ان کے ذریعے سے انسانوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ مغربی معاشرے میں اس کا مظاہرہ سکول کے کمسن بچوں کی طرف سے اپنے ہم جماعتوں کے اجتماعی قتل ایک انسان کی طرف سے بغیر دُشمنی کے یکے بعد دیگرے بیسیو قتل، بچوں پر مجرمانہ تشدد اور ایسی فلموں کی صورت میں سامنے آتا ہے جس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیئےانسانوں کو واقعتاَ قتل کر کے فلمیں (Snuff Movies) بنائی جاتی ہیں۔ اگر یہ نہ مانا جائے کہ برائی کی قوت انسان کو اپنا آلہ کار بنا کر یہ کام کراتی ہے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ سب کچھ انسان کی اپنی فطرت میں شامل ہے۔ مسلمان کو یہی بتایا گیا ہے کہ برائی کی ان قوتوں سے اللہ کی پناہ حاصل کریں۔ (Medicine of Prophet by Ibn- Qayyim Al-Jauziyah, foot note 157) رسول اللہﷺ نے اس غرض سے بہت سی دُعائیں بتائی اور مانگی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ بھی حکم ہے کہ جس کسی کو نظر لگ جا تی ہے وہ اچھی چیز یا انسان کو دیکھتے ہی اس کے لیئے برکت کی دُعا کرے۔ اگر کسی شخص پر نظرِ بد کے اثرات شدید ہوں تو اس کا علاج یہ بتایا گیا ہے کہ کس شخص کی نظر لگی ہو وہ وضو کرے اور تہہ بند وغیرہ کا وہ حصہ جو کمر کے ساتھ لگا ہوتا ہے، اسے دھوئے اور یہ مستعمل پانی متاثرہ شخص پر پھینکا جائے۔ ابو دائود کی یہ حدیث اگرچہ سندََ ضعیف ہے، لیکن اس کی مؤید صحیح روایتیں موجود ہیں جس طرح کے موطا کی روایت جس کا اُپر حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ ایک روحانی علاج ہے۔ یہ کیسے کامیاب ہوتا ہے، اس کا جاننا ضرہری نہیں، لیکن اتنی بات سمجھی جا سکتی ہے کہ وضو کے ذریعے سے انسان کو عمدَ یا خطاَ سرزد ہونے والے منفی امور کے اثرات سے نجات حاصل ہو جاتی ہے۔ ان منفی امور کے نتائج بد سے پناہ حاصل کرنے کا ایک طریق ہے کہ جس کی نظر لگ گئی ہے، اس نے جب خود وضو کے ذریعے سے ان امور سے پناہ حاصل کی اور وضو کے پانی نے انکا ازالہ کردیا تو جس دوسرے انسان پر اس کے منفی جذبے کا اثر ہوا اگر وہ اپنے اُپر یہی پانی گرا لے تو یہ اثر بدرجہ اولیٰ زائل ہو جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نظر بد لگانے والے کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ وضو کرے، پھر جسے نظر لگی ہوتی اس پانی سے غسل کرتا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): The man casting evil would be commanded to perform ablution, and then the man affected was washed with it.