Abu-Daud:
Medicine (Kitab Al-Tibb)
(Chapter: Ruqyah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3885.
جناب یوسف بن محمد یا محمد بن یوسف بن ثابت بن قیس بن شماس اپنے والد سے وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سیدنا ثابت بن قیس ؓ کے ہاں آئے۔ احمد نے کہا: جبکہ وہ مریض تھے تو آپ ﷺ نے دعا فرمائی «اكْشِفْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، عن ثابت بن قيس بن شماس» ”اے لوگوں کے پالنے والے! اس تکلیف کو ثابت بن قیس بن شماس سے دور فرما دے۔“ پھر آپ ﷺ نے وادی بطحان کی مٹی لی، اسے ایک پیالے میں ڈالا‘ پھر اس پر پانی پھونک کر ڈالا اور پھر اسے اس پر چھڑک دیا۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: ابن السرح نے راوی کا نام یوسف بن محمد ذکر کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔
تشریح:
یہ روایت پانی وغیرہ پر دم کرنے کے لیئے بطور دلیل پیش کی جاتی ہے، ابنِ حبان نے اس کو صحیح کہا ہے، لیکن یوسف بن محمد کو ان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا۔
الطب کی تعریف: لغت میں طب کے معنی ذہنی وجسمانی علاج اور دوا دارو کے ہیں۔
اللہ تعالی نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔اسے تمام مخلوقات سے اشرف بنا کرتمام مخلوقات کو اس کے تا بع فرمان بنا دیا ہے۔ انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اپنی عبادت قرار دیا ہے۔ اللہ تعا لی کی عبادت میں ہمہ وقت مصروف رہنے کے لیئےصحت و تندرستی کی اشدضرورت تھی لہذاپروردگارِ عالم نے بے شمار نعمتیں پیدا کیں حلال اور مفید اشیاء کو کھانے کی اجازت دے کر مضرِصحت ،مضرِعقل، مضرِعزت وآبرواشیاء سے منع کردیا۔البتہ پھر بھی اگر اللہ ےتعالی کی مشیت سے بیماری آجائےتو اس کا علاج کرنا مشروع ہے۔ اللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج بھی پیدا کیا ہے۔ ‘جیسا کہ فرمان نبوی ﷺ ہے [مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً](صحيح البخارى ،الطب،باب ما انزل الله داء....حديث:5678)’’اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی شفا )علاج اور دوا) نازل کی ہے۔‘‘ بیماری کے موافق دوا استعمال اللہ تعالیٰ کی مشیت سے سفا کا باعث بنتا ہے ‘لہذا ہر شخص کو صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل چیزوں کو مد نظر رکھنا چاہیے : 1 صحت کی حفاظت2 مضر صحت چیزوں سے بچاؤ3 فاسد مادوں کا اخراج ۔
ان تین چیزوں کو طب اسلامی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ان کا ذکر قرآن مجید میں بھی اشارتاً موجود ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے (وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ)(البقرہ :185)’’جو شخص بیمار ہو یا مسافر ہو تو وہ (روزوں کی) گنتی دیگر ایام میں پوری کر لے‘‘
چونکہ بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے بڑھنے کا خدشہ تھا نیز سفر چونکہ تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرہ کا سبب تھا لہذا ان دو حالتو ں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی تا کہ انسانی صحت کی حفاظت ممکن بنائی جا سکے۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے (وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ) (النساء:29)’’تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کر و‘‘ اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیممّ کی مشروعیت کا ستنباط کیا گیا ہے ‘چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال مضر صحت ہو سکتا تھا اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے ۔
تیسرے مقام پر ارشاد ہے (أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ)(البقرہ:196)’’یا (محرم کے) سر میں تکلیف ہو تو وہ فدیہ دے(اور سرمنڈ والے۔‘‘)اب اس آیت میں محرم شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دے دی گئی تا کہ فاسدوں سے نجات حاصل ہو سکے جو کہ صحت کے لیے مضر ہیں اس طرح سے شریعت نے انسانی صحت کا مکمل خیال رکھا ہے ۔
٭طب نبویﷺ کے چند لاجواب علاج :طب نبوی میں ایسے نادر اور بے مثال علاج موجود ہیں جو متعدد بیماریوں کا شافی علاج ہیں۔
1 زمزم :ارشاد نبویﷺ ہے[مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ](سنن ابن ماجہ ‘المناسک ‘باب الشرب من زمزم‘حدیث :3062)’’زمزم کو جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے ۔‘‘
بے شمار لوگ اس نسخے سے موذی امراض سے نجات پا چکے ہیں ۔
2شہد :ارشاد باری تعالیٰ ہے (يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ)(النحل:69)’’ان کے پیٹ سے مشروب نکلتا ہے ‘جس کے رنگ مختلف ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے ۔‘‘
3کلونجی:رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے [فِي الحَبَّةِ السَّوْدَاءِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ، إِلَّا السَّامَ] ( صحیح البخاری‘الطب ‘باب الحبۃ السواداء حدیث :5688)’’سیاہ دانے (کلونجی) میں موت کے سوا ہر بیماری کی شفا ہے۔‘‘
جناب یوسف بن محمد یا محمد بن یوسف بن ثابت بن قیس بن شماس اپنے والد سے وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سیدنا ثابت بن قیس ؓ کے ہاں آئے۔ احمد نے کہا: جبکہ وہ مریض تھے تو آپ ﷺ نے دعا فرمائی «اكْشِفْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، عن ثابت بن قيس بن شماس» ”اے لوگوں کے پالنے والے! اس تکلیف کو ثابت بن قیس بن شماس سے دور فرما دے۔“ پھر آپ ﷺ نے وادی بطحان کی مٹی لی، اسے ایک پیالے میں ڈالا‘ پھر اس پر پانی پھونک کر ڈالا اور پھر اسے اس پر چھڑک دیا۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: ابن السرح نے راوی کا نام یوسف بن محمد ذکر کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت پانی وغیرہ پر دم کرنے کے لیئے بطور دلیل پیش کی جاتی ہے، ابنِ حبان نے اس کو صحیح کہا ہے، لیکن یوسف بن محمد کو ان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ثابت بن قیس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، وہ بیمار تھے تو آپ نے فرمایا: «اكْشِفْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، عن ثابت بن قيس بن شماس» ”لوگوں کے رب! اس بیماری کو ثابت بن قیس سے دور فرما دے۔“ پھر آپ نے وادی بطحان کی تھوڑی سی مٹی لی اور اسے ایک پیالہ میں رکھا، پھر اس میں تھوڑا سا پانی ڈال کر اس پر دم کیا اور اسے ان پر ڈال دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن سرح کی روایت میں یوسف بن محمد ہے اور یہی صحیح ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Thabit ibn Qays ibn Shammas (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) entered upon Thabit ibn Qays. The version of Ahmad (ibn Salih) has: When he was ill He (the Prophet ﷺ) said: Remove the harm, O Lord of men, from Thabit ibn Qays ibn Shammas. He then took some dust of Bathan, and put it in a bowel, and then mixed it with water and blew in it, and poured it on him.