Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Objects With Which It Is Prohibited To Purify Oneself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
39.
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ جنوں کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے کہا: اے محمد ﷺ! اپنی امت کو منع فرما دیجئیے کہ وہ ہڈی یا کوئلے سے استنجاء کریں، کیونکہ اللہ عزوجل نے ان میں ہمارا رزق رکھا ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ان سے روک دیا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه ابن التركماني) إسناده: ثنا حَيْوة بن شُرَيْح الحِمصي: ثنا ابن عياش عن يحيى بن أبي عمرو السيباتي عن عبد الله بن الديلمي عن عبد الله بن مسعود. وهذا إسناد صحيِح رجاله كلهم ثقات، وابن عياش: هو إسماعيل الحمصي وشيخه حمصي أيضآ، وابن عياش- إذا روى عن الشاميين- حجة عند البخاري وأحمد وابن معين، وإذا روى عن الحجازيين؛ فهو ضعيف، وقد بين السبب في ذلك محمد بن عثمان بن أبي شيبة عن يحيى بن معين؛ قال: هو ثقة فيما روى عن الشاميين، وأما روايته عن أهل الحجاز؛ فإن كتابه . ضاع، فخلط في حفظه عنهم . ومن ذلك تعلم أن قول المنذري (رقم 35) : في إسناده إسماعيل بن عياش؛ وفيه مقال ! لا يروى ولا تحقيق فيه. والحديث أخرجه البيهقي من طريق المؤلف، وأخرجه الدارقطتي (21) من طريق هشام بن عمار: نا إسماعيل بن عياش... به. وقال الدارقطني- وتبعه البيهقي-: إسناد شامي ليس بثابت ! وقد رد ذلك عليهما ابن التركماني فقال في الجوهر النقي : قلت: ينبغي أن يكون هذا الإسناد صحيحاً؛ فإن عبد الله بن فيروز الديلمي وثقه ابن معين والعجلي، ويحيى بن أبي عمرو وثقه يعقوب بن سفيان، وقال ابن حنبل: ثقة ثقة. وهو حمصي، ورواية ابن عياش عن الشاميين صحيحة، كذا ذكر البيهقي في (باب ترك الوضوء من الدم) ، وحيوة الحمصي أخرج عنه البخاري . وللحديث طريق أخرى عندهما: عن ابن وهب: ثتي موسى بن علَي عن أبيه عن ابن مسعود... به. وهذا سند صحيح على شرط مسلم. وأما هما؛ فأً علاّه بأن عُلَيَّ بن رباح لم يثبت سماعه من ابن مسعود! ورده ابن التركماتي أيضا بأن هذا ليس بشرط عند مسلم والجمهور، بل يكفي إمكان اللقاء
والسماع؛ وعًلَي هذا؛ ولد سنة خمس عشرة، كذا ذكر أبو سعيد بن يونس، فسماعه من ابن مسعود ممكن بلا شك؛ لأن ابن مسعود توفي سنة (32) ، وقيل: (33) . قلت: وهو لم يذكر بتدليس؛ فلا تضرّ عنعنته. ومن طريقه: أخرجه الخطابي أيضا في غريب الحديث (47/1) . وله شاهد في مسند البزار (ص 31- زوائده) عن عبد الله بن الحارث بن
جَزْء... مرفوعاً مختصراً. وطريق آخر عند النسائي (1/35- 36- دار القلم) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ جنوں کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے کہا: اے محمد ﷺ! اپنی امت کو منع فرما دیجئیے کہ وہ ہڈی یا کوئلے سے استنجاء کریں، کیونکہ اللہ عزوجل نے ان میں ہمارا رزق رکھا ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ان سے روک دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ جنوں کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: آپ اپنی امت کو ہڈی، لید ( گوبر، مینگنی)، اور کوئلے سے استنجاء کرنے سے منع فرما دیجئے کیونکہ ان میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے روزی بنائی ہے، تو آپ ﷺ نے اس سے منع فر دیا ۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ہڈی جنوں کی اور لید ان کے جانوروں کی خوراک ہے، اور کوئلے سے وہ روشنی کرتے، یا اس پر کھانا پکاتے ہیں، اسی واسطے اس کو بھی روزی میں داخل کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Mas'ud (RA): A deputation of the jinn came to the Prophet (ﷺ) and said: O Muhammad (ﷺ), forbid your community to cleans themselves with a bone or dung or charcoal, for in them Allah has provided sustenance for us. So the Prophet (ﷺ) forbade them to do so.