Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Cleansing Oneself With Stones)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
40.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی پاخانہ کے لیے جانے لگے تو اپنے ساتھ تین ڈھیلے لے جایا کرے، ان سے استنجاء کر لیا کرے، بیشک یہ اس کے لیے کفایت کریں گے۔‘‘
تشریح:
فوائد ومسائل: (1) ہدایت ہے کہ رفع حاجت کے لیے بیٹھنے سے پہلے طہارت حاصل کرنے کا انتظام کرلیا جائے۔ ممکن ہے برموقع کوئی چیز مہیا نہ ہو لہذا غیر معتمد مقامات پر نل کو پہلے دیکھ لیا جائے کہ آیا اس میں پانی بھی ہے یا نہیں۔ (2) ڈھیلے کا حکم سائل کے بدوی ہونے کی مناسبت سے ہے اور یہ ہے کہ تین ڈھیلوں سے استنجا پانی سے کفایت کرتا ہے آج کل ٹشوپیپر اس کا قائم مقام ہے۔ تاہم افضلیت پانی ہی کے استعمال میں ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن، وقال النووي: صحيح ، وحسن إسناده الدارقطني) .
إسناده: حدثنا سعيد بن منصور وفتيبهَ بن سعيد فالا: ثنا يعقوب بن عبد للرحمن عن أبي حازم عن مسلم بن قُرْط عن عروة عن عائشة. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير مسلم بن قرط؛ قال الذهبي في الميزان : لا يعرف، روى عنه أبو حازم الأعرج . وقال السيوطي في حاشيته على النسائي : قال الزركشي في التخريج : قرط: بضم القاف وسكون الراء وطاء مهملة؛ لم يرو عنه غير أبي حازم، ولا يعرف هذا الحديث بغير هذا الإسناد، ولا ذكر لابن
قرط في غيره، ولم يتعرضوا له بمدح ولا قدح، وقال الشيخ ولي للدين: ذكره ابن حبان في الثقات ، وقال: يخطئ. ولا نعرفه بأكثر من أنه روى عن عروة . وقال الحافظ في تهذيب التهذيب - بعد أن نقل قول ابن حبان فيه: يخطئ -:
هو مقل جدّاً، وإذا كان مع قلة حديثه يخطئ؛ فهو ضعيف . قلت: لكن الحديث له شاهد من رواية أبي أيوب لأثصاري رضي الله عنه بلفظ: إذا تغوط أحدكم فليتمسح بثلاثة أحجار؛ فإن ذلك كافيه . قال في مجمع الزوائد (1/211) : رواه الطبراني في الكبيرلما و الأوسط ؛ ورجاله موثقون، إلا أن أبا شعيب صاحب أبي أيوب لم أر فيه تعديلاً ولا جرحاً . فالحديث- بهذا الشاهد- حسن إن شاء الله تعالى، بل هو صحيح؛ فإنه بمعنى حديث سلمان المتقدم رقم (5) : ولا يستنجي أحدنا بأقل من ثلاثة أحجار . والحديث أخرجه الدارمي وأحمد (6/133) قالا: ثنا سعيد بن منصور... به وأخرجه النسائي قال: أخبرنا قتيبة... به. وأخرجه الدارقطتي (20) ، وكذا أحمد (6/108) من طريق عبد العزيز بن أبي حازم: نا أبي... به. وقال الدارقطني: إسناد حسن . وفي نسخة: صحيح .ونقل الحافظ في ترجمة ابن قرط عنه أنه حسنه. والزيلعي (1/214 و 215) أنه قال: إسناد صحيح . وظاهر أن هذا من اختلاف النسخ.
وأها النووي فجمع بين النسختين؛ فقال (2/93 و 96) : حديث صحيح، قال الدارقطني: إسناده حسن صحمِح !
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی پاخانہ کے لیے جانے لگے تو اپنے ساتھ تین ڈھیلے لے جایا کرے، ان سے استنجاء کر لیا کرے، بیشک یہ اس کے لیے کفایت کریں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1) ہدایت ہے کہ رفع حاجت کے لیے بیٹھنے سے پہلے طہارت حاصل کرنے کا انتظام کرلیا جائے۔ ممکن ہے برموقع کوئی چیز مہیا نہ ہو لہذا غیر معتمد مقامات پر نل کو پہلے دیکھ لیا جائے کہ آیا اس میں پانی بھی ہے یا نہیں۔ (2) ڈھیلے کا حکم سائل کے بدوی ہونے کی مناسبت سے ہے اور یہ ہے کہ تین ڈھیلوں سے استنجا پانی سے کفایت کرتا ہے آج کل ٹشوپیپر اس کا قائم مقام ہے۔ تاہم افضلیت پانی ہی کے استعمال میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمای: ’’جب تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے جائے تو تین پتھر اپنے ساتھ لے جائے، انہی سے استنجاء کرے، یہ اس کے لیے کافی ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin(RA): The Apostle of Allah (ﷺ) said: When any of you goes to relieve himself, he should take with him three stones to cleans himself, for they will be enough for him.