Abu-Daud:
Clothing (Kitab Al-Libas)
(Chapter: Regarding The Supplication To Be Said For One Who Puts On A New Garment)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4024.
سیدہ ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ کپڑے لائے گئے، ان میں ایک چھوٹی سی دھاری دار اونی چادر بھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے کہ اس کا زیادہ حقدار کون ہے؟“ تو صحابہ خاموش رہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”ام خالد کے میرے پاس لاؤ۔“ اسے لایا گیا تو یہ آپ ﷺ نے اسے اوڑھا دی۔ پھر فرمایا: «أبلي وأخلقي» ”اللہ کرے تم اسے خوب پہنو اور پرانا کرو۔“ آپ ﷺ نے یہ دو بار فرمایا۔ اور آپ ﷺ اس چادر کی سرخ یا زرد دھاریاں دیکھنے لگے اور فرماتے جاتے تھے: «سناه سناه يا أم خالد» اور یہ لفظ حبشی زبان میں ”خوبصورت“ کے معنی میں آتا ہے۔ (یعنی بہت خوبصورت، بہت خوبصورت ہے۔ اے ام خالد!)۔
تشریح:
نیا کپڑا پہننے والے کو مذکورہ دعا دینا مسنون اور مستحب ہے، اس میں ضمنًا کپڑا پہننے والے کے لئے صحت وعافیت اور لمبی زندگی کی دعا ہے کہ وہ اس سے خوب استفادہ کرے حتی کہ وہ جائے۔ روایت میں مذکور صیغے مونث کے لئے ہیں۔ مذکر کے لئے یوں بھی کہے جا سکتے ہیں۔
پہلے زمانے میں شہروں میں بالخصوص مشرق وسطی میں مخصوص انداز سے اجتماعی غسل خانے بنائے جاتے تھے جہاں موسم کے مطابق پانی وغیر ہ مہیا ہوتا تھا اوربعض ایسی بیماریاں جو مالش اور غسل قابل علاج ہوتی تھیں ان کاعلاج بھی کیا جاتا تھا ان میں مرد عورتیں سبھی آتے تھے اور پردے کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا تھا ۔ اسلام نے مرد وزن کے اختلاط اور بے پردگی کو حرام قراردیا اور ان اجتماعی غسل کی بابت بھی اصلاحی ہدایات بیان فرمائیں ۔ ذیل کے ابواب اور احادیث کا تعلق انہی اصلاحات سے ہے ۔
کتاب اللباس
اسلام شرم وحیااورعفت وعصمت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔ شرم وحیا کی حفاظت کے لئے اسلام نے نظام ستر وحجاب انسانیت کو دیا ہے ،لباس جہاں زیب وزینت کا باعث ہے وہاں شرم وحیا کی حفاظت میں موثرترین ہتھیار بھی ہے لہذااسلام نے اپنے ماننے والوں کو ان مقاصد کے حصول کے لئےلباس پہننے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری ہے کہ(يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ)(الاعراف:31)"اے اولاد آدم تم ہر نماز کے وقت زینت اختیار کرو" اس لئے ہر وہ لباس جو شرم وحیاکی ضمانت فراہم کرے اور حسن وجمال کا باعث بنے اس کو پہننے کی اجازت دی گئی ہے ۔ ان دو خوبیوں والے لباس کی بدولت مسلم امت دوسرے لوگوں پر ممتاز دکھائی دیتی ہے ۔ دوسری کوئی تہذیب یا مذہب اسلامی نظام حیا اور لباس جیسا منفرد اور اعلی نظام پیش کرنے سے قاصر ہیں ،ارشاد باری تعالی ہے (يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ)(الاعراف:26)"اے آدم بے شک ہم نے تمہارے لئے ایسا لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہیں چھپاتا ہے اورزینت کا باعث بھی ہےاور تقوی کا لبا س اس سے بڑھ کر ہے ۔ "
محسن انسانیت ،رحمت دوعالم ﷺ نے اپنی امت کو لباس سے متعلق شاندار آداب سکھائے ہیں جنہیں اختیار کرکے مسلمان حسن وآرائش،شرم وحیا کی حفاظت اوراخروی سعادت حاصل کرسکتا ہے ،ان سنہری آداب کو ملحوظ رکھنا ہر مسلمان کی خوش بختی ہے جبکہ ان آداب کوترک کرکے اقوام مغرب کی نفس پرستی کی پیروی کرنا اور ان جیسا لباس تن کرنا،ان جیسی شکل وشباہت اختیار کرنا ،سراسرگمراہی اور ضلالت ہے ۔ اللہ تعالی سب مسلمانوں کو محفوظ فرمائے ۔ (آمین )
تاجدارمدینہ ﷺ کی زبان اقدس سے ارشاد ہونے والےچندآداب درج دیل ہیں :
1۔ مسلمانوں کا لباس دو بنیادی ضروریات کے لئے ہوتاہے ،ستر پوشی اور زینت کا اظہار ،لہذاایسا لباس جو فخرومباہات یا غروروتکبر کی علامت سمجھاجاتا ہو یا جس سے ستر پوشی کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو اسے پہننا غلط اور ناجائز ہوگا ۔ ارشاد نبوی ہے [كُلُوا وَاشْرَبُوا وَتَصَدَّقُوا وَالْبَسُوا مَا لَمْ يُخَالِطْهُ إِسْرَافٌ، أَوْ مَخِيلَةٌ](سنن ابن ماجه ،اللباس،حديث:3205 ،وعلقه البخارى فى اول كتاب اللباس مسند احمد:2/182)"کھائو ،پیو ،پہنو اور صدقہ خیرات کرو مگر اسراف اور تکبرکیے بغیر "
2۔مردوں کے لئے سونا اور ریشمی لباس پہننا حرام ہے جبکہ عورتوں کے لیے یہ دونوں چیزیں حلال ہیں لہذاوہ اپنی زیب وزینت کے لئے استعمال کرسکتی ہیں ۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے[حُرِّمَ لِبَاسُ الحَرِيرِ وَالذَّهَبِ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي وَأُحِلَّ لِإِنَاثِهِمْ](جامع ترمذى ،اللباس ،باب ما جاء فى الحرير والذهب للرجال ،حديث:1720) "میری امت کے مردوں پر ریشمی لباس اور سونا پہننا بھی حرام کردیاہے اور عورتوں کے لئے حلال ہے "
3- لباس کو اتنا لمبا رکھنا کہ وہ زمین پر گھسٹتاہے یہ تکبر اور بڑائی کی علامت ہے ، لہذاایسا لباس پہننا حرام قراردے دیا گیا ہے[مَا أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَيْنِ مِنَ الإِزَارِ فَفِي النَّارِ] (صحيح البخارى،اللباس ،باب ما اسفل من الكعبين فهو فى النار،حديث 5787)"جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے چلا جائے وہ جہنم میں لے جاتا ہے "
4-شریعت اسلامی نے اپنے پیروکاروں کے لئے سفید لباس کو پسند کیا جو وقار کی علامت ہے ،اردشاد نبوی ہے[البَسُوا البَيَاضَ فَإِنَّهَا أَطْهَرُ وَأَطْيَبُ، وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ](جامع الترمذى،الادب ،باب ماجاء فى البياض،حديث:2810)"سفید لباس پہنو یہ زیادہ پاک اور صاف ہوتا ہے اور اپنے مردوں کو اسی میں کفن دو"
5۔مسلمان عورتوں کو ایسا لباس پہننے کا حکم دیا گیا ہے جو زیادہ تر با حیا اور زیادہ باوقار ہو ، لہذا مغرب زدہ فیشن کی پیروی میں تنگ وچست ،باریک اور شفاف لباس پہننا مسلمان عورتوں کے لئے جائز نہیں ۔ ایسا لباس پہننے والوں کوخصوصا رسول اکرم ﷺ نے ڈرایاہے ۔ ارشادگرامی ہے’’ جہنم کے دو گروہ میں نے نہیں دیکھے(یعنی ابھی نمودار نہیں ہوئے)ان میں سے ایک گروہ وہ عورتیں ہیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی (نہایت باریک اور شفاف لباس زین تن کریں گی جن سے اعضا ءواضح نظر آئیں گے )یہ عورتیں جنت کی خوشبو تک نہ پائیں گی ،حالانکہ اس کی خوشبو دور دور تک آئے گی ۔
6۔اسلامی لباس کا ایک اہم اصول مردوزن کے لباس میں نمایاں فرق کاہونا ہے ،لہذاجو مرد عورتوں جیسا یا عورتیں مردوں جیسا لباس ان کے لئے سخت وعیدداردہے ۔
7۔سونے کی انگھوٹھی ،چین یا گھڑی وغیرہ پہننامردوں کےلئے حرام ہے ۔ البتہ چاندی استعمال کرسکتا ہے۔
8۔ایسا تنگ اور بندلباس پہننا جس میں بوقت ضرورت ہاتھ باہر نہ نکل سکیں منع ہے ۔
9۔ایک جوتا پہن کر چلنا منع ہے ۔
10۔لباس یا جوتا وغیر ہ پہنتے وقت دائیں طرف سے پہننا شروع کرے اور اتارٹے وقت بائیں جانب سے شروع کرے ۔
11۔نیا لباس پہنتے وقت اللہ تعالی کی نعمت کے شکر کے اظہار کے لئے دعا پڑھنا چاہیے ۔
12۔مسلمان بھائی کو نیا لباس پہنے دیکھ کر مسنون دعا دینی چاہیے ۔
13۔کنگھی کرتے وقت دائیں جانب سے شروع کرنا اور سرکے درمیان سے مانگ نکالنا سنت ہے ۔
سیدہ ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ کپڑے لائے گئے، ان میں ایک چھوٹی سی دھاری دار اونی چادر بھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے کہ اس کا زیادہ حقدار کون ہے؟“ تو صحابہ خاموش رہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”ام خالد کے میرے پاس لاؤ۔“ اسے لایا گیا تو یہ آپ ﷺ نے اسے اوڑھا دی۔ پھر فرمایا: «أبلي وأخلقي» ”اللہ کرے تم اسے خوب پہنو اور پرانا کرو۔“ آپ ﷺ نے یہ دو بار فرمایا۔ اور آپ ﷺ اس چادر کی سرخ یا زرد دھاریاں دیکھنے لگے اور فرماتے جاتے تھے: «سناه سناه يا أم خالد» اور یہ لفظ حبشی زبان میں ”خوبصورت“ کے معنی میں آتا ہے۔ (یعنی بہت خوبصورت، بہت خوبصورت ہے۔ اے ام خالد!)۔
حدیث حاشیہ:
نیا کپڑا پہننے والے کو مذکورہ دعا دینا مسنون اور مستحب ہے، اس میں ضمنًا کپڑا پہننے والے کے لئے صحت وعافیت اور لمبی زندگی کی دعا ہے کہ وہ اس سے خوب استفادہ کرے حتی کہ وہ جائے۔ روایت میں مذکور صیغے مونث کے لئے ہیں۔ مذکر کے لئے یوں بھی کہے جا سکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ کپڑے آئے جن میں ایک چھوٹی سی دھاری دار چادر تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ کس کو اس کا زیادہ حقدار سمجھتے ہو؟“ تو لوگ خاموش رہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”ام خالد کو میرے پاس لاؤ۔“ چنانچہ وہ لائی گئیں، آپ نے انہیں اسے پہنا دیا پھر دوبار فرمایا: ”پہن پہن کر اسے پرانا اور بوسیدہ کرو۔“ آپ چادر کی دھاریوں کو جو سرخ یا زرد رنگ کی تھیں دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: ”اے ام خالد! ”«سناه سناه» اچھا ہے اچھا ہے۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: سناہ حبشی زبان میں اچھا کے معنی میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Umm Khalid, daughter of Sa'd b. al-'As: Once the Messenger of Allah (ﷺ) was brought some garments among which was a small cloak with a border and black stripes. He said: Whom do you think to be more deserving for it ? The people kept silence. He said: Bring Umm Khalid. Then she was carried to him and he put it on her, saying: Wear it out and make it ragged twice. Then he went on looking at red or yellow marks on it, and said: This is sanah, sanah, Umm Khalid. It means "beautiful" in the language of the Abyssinians.