Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Time For Zurh Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
403.
سیدنا جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب سورج ڈھل جاتا تھا تو بلال ؓ ظہر کی اذان کہتے تھے۔
تشریح:
(1) (اِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَیحِ جَهَنَّمَ) یعنی ’’گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے یا اس کی جنس سےہے۔،، چونکہ رسول اللہ ﷺ نےاپنے اس فرمان کی توضیح نہیں فرمائی اس لیے ہمارے نزدیک اسے ظاہر ہی پر محمول کرنا زیادہ بہترہے جبکہ کچھ علماء نےاسے تشبیہ واستعارہ قرار دیا ہے۔ ظاہر اورحقیقت پرمحمول کرنے کی دلیل وہ حدیث ہےجس میں ہے کہ ’’ آگ نے اپنے رب سے شکایت کی تو اس کو دو سانسوں کی اجازت دی۔ ایک سردی میں اور ایک گرمی میں۔،، (صحیح مسلم، حدیث: 217) (2) ( ابردوا بالصلاۃ ) یعنی ’’نماز کوٹھنڈے وقت میں پڑھو ۔،، اس سے وہ وقت مراد ہے جب بعداززوال ہوائیں چلنا اورگرمی کی شدت میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہےاور اسی وقت جہنم کچھ ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اگر بالکل ہی ٹھنڈک کا وقت مراد لیا جائے تو بعض اوقات عصر کے وقت اور کبھی اس کے بعد بھی ٹھنڈک نہیں ہوتی ہے۔ نبی ﷺ اور صحابہ کرام کے معمولات سے اس حدیث کا یہی مفہوم واضح ہوتا ہے۔ (دیکھیے نیل الاوطار) اور یہ امر جمہور کے نزدیک استحباب وارشاد پر محمول ہے اور کچھ نے اس کے وجوب کے لیے بھی سمجھا ہے۔ وللہ أعلم. تعجیل وابراد میں رفع تعارض اور جمع میں مذکورۃ الصدر مفہوم کی واضح دلیل یہ ہےکہ سول اللہ ﷺ جہاد کے موقع پر اگر پہلے پہرقتال شروع نہ فرماتے توزوال کا انتظار کرتے تھے۔ اور اس وقت کو آپ نے ہواؤں کے چلنے، نصرت کے اترنے اور قتال کے لیے مناسب ہونے سے تعبیر فرمایا ہے۔ نص یہ ہے: (كَانَ «إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ، انْتَظَرَ حَتَّى تَهُبَّ الأَرْوَاحُ، وَتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ») (صحيح بخاري، حديث: 3160 – قال في الفتح: 6/ 365 – فى رواية ابن ابى شيبة " ونزول الشمس ،، وهو بالمعنى ، وزاد في رواية الطبري "ويطيب القتال،، وفي رواية ابن أبي شيبة ’’وينز ل النصر،،
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب سورج ڈھل جاتا تھا تو بلال ؓ ظہر کی اذان کہتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) (اِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَیحِ جَهَنَّمَ) یعنی ’’گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے یا اس کی جنس سےہے۔،، چونکہ رسول اللہ ﷺ نےاپنے اس فرمان کی توضیح نہیں فرمائی اس لیے ہمارے نزدیک اسے ظاہر ہی پر محمول کرنا زیادہ بہترہے جبکہ کچھ علماء نےاسے تشبیہ واستعارہ قرار دیا ہے۔ ظاہر اورحقیقت پرمحمول کرنے کی دلیل وہ حدیث ہےجس میں ہے کہ ’’ آگ نے اپنے رب سے شکایت کی تو اس کو دو سانسوں کی اجازت دی۔ ایک سردی میں اور ایک گرمی میں۔،، (صحیح مسلم، حدیث: 217) (2) ( ابردوا بالصلاۃ ) یعنی ’’نماز کوٹھنڈے وقت میں پڑھو ۔،، اس سے وہ وقت مراد ہے جب بعداززوال ہوائیں چلنا اورگرمی کی شدت میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہےاور اسی وقت جہنم کچھ ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اگر بالکل ہی ٹھنڈک کا وقت مراد لیا جائے تو بعض اوقات عصر کے وقت اور کبھی اس کے بعد بھی ٹھنڈک نہیں ہوتی ہے۔ نبی ﷺ اور صحابہ کرام کے معمولات سے اس حدیث کا یہی مفہوم واضح ہوتا ہے۔ (دیکھیے نیل الاوطار) اور یہ امر جمہور کے نزدیک استحباب وارشاد پر محمول ہے اور کچھ نے اس کے وجوب کے لیے بھی سمجھا ہے۔ وللہ أعلم. تعجیل وابراد میں رفع تعارض اور جمع میں مذکورۃ الصدر مفہوم کی واضح دلیل یہ ہےکہ سول اللہ ﷺ جہاد کے موقع پر اگر پہلے پہرقتال شروع نہ فرماتے توزوال کا انتظار کرتے تھے۔ اور اس وقت کو آپ نے ہواؤں کے چلنے، نصرت کے اترنے اور قتال کے لیے مناسب ہونے سے تعبیر فرمایا ہے۔ نص یہ ہے: (كَانَ «إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ، انْتَظَرَ حَتَّى تَهُبَّ الأَرْوَاحُ، وَتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ») (صحيح بخاري، حديث: 3160 – قال في الفتح: 6/ 365 – فى رواية ابن ابى شيبة " ونزول الشمس ،، وهو بالمعنى ، وزاد في رواية الطبري "ويطيب القتال،، وفي رواية ابن أبي شيبة ’’وينز ل النصر،،
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن سمرہ ؓ کہتے ہیں کہ بلال ؓ ظہر کی اذان اس وقت دیتے تھے جب سورج ڈھل جاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir b. Samurah (RA) reported that Bilal (RA) used to call for the noon prayer when the sun had declined.