باب: پرانے ( میلے کچیلے اور گھٹیا ) کپڑے پہننے ( کی کراہت ) اور کپڑے دھونے کا بیان
)
Abu-Daud:
Clothing (Kitab Al-Libas)
(Chapter: Regarding Worn Out Clothes, And Washing Clothes)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4063.
جناب ابوالاحوص (عوف) اپنے والد (مالک بن نضلہ ؓ) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے گھٹیا کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”کیا تمہارے پاس مال ہے؟“ میں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے پوچھا کس قسم کا؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ نے مجھے اونٹ، بکریاں، گھوڑے اور غلام ہر طرح کا مال عنایت فرمایا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ نے تمہیں مال دیا ہے تو اس کی نعمت اور احسان کا اثر تجھ پر نظر آنا چاہیئے۔“
تشریح:
مستحب ہے کہ انسان اپنی حیثیت کے مطابق مناسب لباس وغیرہ استعمال کرے اور اللہ کا شکر ادا کرے، مگر لازم ہے کہ بہت زیادہ مال داری کا اظہار بھی نہ ہو کیونکہ اس طرح دیگر مسلمانوں میں حسرت اور محرومی کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں جو ناپسندیدہ امر ہے۔
پہلے زمانے میں شہروں میں بالخصوص مشرق وسطی میں مخصوص انداز سے اجتماعی غسل خانے بنائے جاتے تھے جہاں موسم کے مطابق پانی وغیر ہ مہیا ہوتا تھا اوربعض ایسی بیماریاں جو مالش اور غسل قابل علاج ہوتی تھیں ان کاعلاج بھی کیا جاتا تھا ان میں مرد عورتیں سبھی آتے تھے اور پردے کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا تھا ۔ اسلام نے مرد وزن کے اختلاط اور بے پردگی کو حرام قراردیا اور ان اجتماعی غسل کی بابت بھی اصلاحی ہدایات بیان فرمائیں ۔ ذیل کے ابواب اور احادیث کا تعلق انہی اصلاحات سے ہے ۔
کتاب اللباس
اسلام شرم وحیااورعفت وعصمت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔ شرم وحیا کی حفاظت کے لئے اسلام نے نظام ستر وحجاب انسانیت کو دیا ہے ،لباس جہاں زیب وزینت کا باعث ہے وہاں شرم وحیا کی حفاظت میں موثرترین ہتھیار بھی ہے لہذااسلام نے اپنے ماننے والوں کو ان مقاصد کے حصول کے لئےلباس پہننے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری ہے کہ(يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ)(الاعراف:31)"اے اولاد آدم تم ہر نماز کے وقت زینت اختیار کرو" اس لئے ہر وہ لباس جو شرم وحیاکی ضمانت فراہم کرے اور حسن وجمال کا باعث بنے اس کو پہننے کی اجازت دی گئی ہے ۔ ان دو خوبیوں والے لباس کی بدولت مسلم امت دوسرے لوگوں پر ممتاز دکھائی دیتی ہے ۔ دوسری کوئی تہذیب یا مذہب اسلامی نظام حیا اور لباس جیسا منفرد اور اعلی نظام پیش کرنے سے قاصر ہیں ،ارشاد باری تعالی ہے (يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ)(الاعراف:26)"اے آدم بے شک ہم نے تمہارے لئے ایسا لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہیں چھپاتا ہے اورزینت کا باعث بھی ہےاور تقوی کا لبا س اس سے بڑھ کر ہے ۔ "
محسن انسانیت ،رحمت دوعالم ﷺ نے اپنی امت کو لباس سے متعلق شاندار آداب سکھائے ہیں جنہیں اختیار کرکے مسلمان حسن وآرائش،شرم وحیا کی حفاظت اوراخروی سعادت حاصل کرسکتا ہے ،ان سنہری آداب کو ملحوظ رکھنا ہر مسلمان کی خوش بختی ہے جبکہ ان آداب کوترک کرکے اقوام مغرب کی نفس پرستی کی پیروی کرنا اور ان جیسا لباس تن کرنا،ان جیسی شکل وشباہت اختیار کرنا ،سراسرگمراہی اور ضلالت ہے ۔ اللہ تعالی سب مسلمانوں کو محفوظ فرمائے ۔ (آمین )
تاجدارمدینہ ﷺ کی زبان اقدس سے ارشاد ہونے والےچندآداب درج دیل ہیں :
1۔ مسلمانوں کا لباس دو بنیادی ضروریات کے لئے ہوتاہے ،ستر پوشی اور زینت کا اظہار ،لہذاایسا لباس جو فخرومباہات یا غروروتکبر کی علامت سمجھاجاتا ہو یا جس سے ستر پوشی کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو اسے پہننا غلط اور ناجائز ہوگا ۔ ارشاد نبوی ہے [كُلُوا وَاشْرَبُوا وَتَصَدَّقُوا وَالْبَسُوا مَا لَمْ يُخَالِطْهُ إِسْرَافٌ، أَوْ مَخِيلَةٌ](سنن ابن ماجه ،اللباس،حديث:3205 ،وعلقه البخارى فى اول كتاب اللباس مسند احمد:2/182)"کھائو ،پیو ،پہنو اور صدقہ خیرات کرو مگر اسراف اور تکبرکیے بغیر "
2۔مردوں کے لئے سونا اور ریشمی لباس پہننا حرام ہے جبکہ عورتوں کے لیے یہ دونوں چیزیں حلال ہیں لہذاوہ اپنی زیب وزینت کے لئے استعمال کرسکتی ہیں ۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے[حُرِّمَ لِبَاسُ الحَرِيرِ وَالذَّهَبِ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي وَأُحِلَّ لِإِنَاثِهِمْ](جامع ترمذى ،اللباس ،باب ما جاء فى الحرير والذهب للرجال ،حديث:1720) "میری امت کے مردوں پر ریشمی لباس اور سونا پہننا بھی حرام کردیاہے اور عورتوں کے لئے حلال ہے "
3- لباس کو اتنا لمبا رکھنا کہ وہ زمین پر گھسٹتاہے یہ تکبر اور بڑائی کی علامت ہے ، لہذاایسا لباس پہننا حرام قراردے دیا گیا ہے[مَا أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَيْنِ مِنَ الإِزَارِ فَفِي النَّارِ] (صحيح البخارى،اللباس ،باب ما اسفل من الكعبين فهو فى النار،حديث 5787)"جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے چلا جائے وہ جہنم میں لے جاتا ہے "
4-شریعت اسلامی نے اپنے پیروکاروں کے لئے سفید لباس کو پسند کیا جو وقار کی علامت ہے ،اردشاد نبوی ہے[البَسُوا البَيَاضَ فَإِنَّهَا أَطْهَرُ وَأَطْيَبُ، وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ](جامع الترمذى،الادب ،باب ماجاء فى البياض،حديث:2810)"سفید لباس پہنو یہ زیادہ پاک اور صاف ہوتا ہے اور اپنے مردوں کو اسی میں کفن دو"
5۔مسلمان عورتوں کو ایسا لباس پہننے کا حکم دیا گیا ہے جو زیادہ تر با حیا اور زیادہ باوقار ہو ، لہذا مغرب زدہ فیشن کی پیروی میں تنگ وچست ،باریک اور شفاف لباس پہننا مسلمان عورتوں کے لئے جائز نہیں ۔ ایسا لباس پہننے والوں کوخصوصا رسول اکرم ﷺ نے ڈرایاہے ۔ ارشادگرامی ہے’’ جہنم کے دو گروہ میں نے نہیں دیکھے(یعنی ابھی نمودار نہیں ہوئے)ان میں سے ایک گروہ وہ عورتیں ہیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی (نہایت باریک اور شفاف لباس زین تن کریں گی جن سے اعضا ءواضح نظر آئیں گے )یہ عورتیں جنت کی خوشبو تک نہ پائیں گی ،حالانکہ اس کی خوشبو دور دور تک آئے گی ۔
6۔اسلامی لباس کا ایک اہم اصول مردوزن کے لباس میں نمایاں فرق کاہونا ہے ،لہذاجو مرد عورتوں جیسا یا عورتیں مردوں جیسا لباس ان کے لئے سخت وعیدداردہے ۔
7۔سونے کی انگھوٹھی ،چین یا گھڑی وغیرہ پہننامردوں کےلئے حرام ہے ۔ البتہ چاندی استعمال کرسکتا ہے۔
8۔ایسا تنگ اور بندلباس پہننا جس میں بوقت ضرورت ہاتھ باہر نہ نکل سکیں منع ہے ۔
9۔ایک جوتا پہن کر چلنا منع ہے ۔
10۔لباس یا جوتا وغیر ہ پہنتے وقت دائیں طرف سے پہننا شروع کرے اور اتارٹے وقت بائیں جانب سے شروع کرے ۔
11۔نیا لباس پہنتے وقت اللہ تعالی کی نعمت کے شکر کے اظہار کے لئے دعا پڑھنا چاہیے ۔
12۔مسلمان بھائی کو نیا لباس پہنے دیکھ کر مسنون دعا دینی چاہیے ۔
13۔کنگھی کرتے وقت دائیں جانب سے شروع کرنا اور سرکے درمیان سے مانگ نکالنا سنت ہے ۔
جناب ابوالاحوص (عوف) اپنے والد (مالک بن نضلہ ؓ) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے گھٹیا کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”کیا تمہارے پاس مال ہے؟“ میں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے پوچھا کس قسم کا؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ نے مجھے اونٹ، بکریاں، گھوڑے اور غلام ہر طرح کا مال عنایت فرمایا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ نے تمہیں مال دیا ہے تو اس کی نعمت اور احسان کا اثر تجھ پر نظر آنا چاہیئے۔“
حدیث حاشیہ:
مستحب ہے کہ انسان اپنی حیثیت کے مطابق مناسب لباس وغیرہ استعمال کرے اور اللہ کا شکر ادا کرے، مگر لازم ہے کہ بہت زیادہ مال داری کا اظہار بھی نہ ہو کیونکہ اس طرح دیگر مسلمانوں میں حسرت اور محرومی کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں جو ناپسندیدہ امر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مالک بن نضلۃ الجشمی ؓ کہتے ہیں میں نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک معمولی کپڑے میں آیا تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم مالدار ہو؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں مالدار ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کس قسم کا مال ہے؟“ تو انہوں نے کہا: اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام (ہر طرح کے مال سے) اللہ نے مجھے نوازا ہے، یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اللہ کی نعمت اور اس کے اعزاز کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہیئے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abul Ahwas Awf ibn Malik: I came to the Prophet (ﷺ) wearing a poor garment and he said (to me): Have you any property? He replied: Yes. He asked: What kind is it? He said: Allah has given me camels. Sheep, horses and slaves. He then said: When Allah gives you property, let the mark of Allah's favour and honour to you be seen.