مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4066.
جناب عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک گھاٹی سے نیچے اترے۔ آپ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ میں نے ایک اکہری چادر لی ہوئی تھی جو ہلکے عصفری رنگ سے رنگی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”تم نے یہ کیسی چادر اپنے اوپر لی ہوئی ہے۔“ میں آپ ﷺ کی ناپسندیدگی کی وجہ سمجھ گیا۔ پھر میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا اور وہ اپنا تنور دہکا رہے تھے تو میں نے اس چادر کو اس میں دے مارا۔ پھر میں اگلے دن آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”عبداللہ! اس چادر کا کیا ہوا؟“ میں نے آپ ﷺ کو بتلایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو نے اسے اپنے گھر والوں میں سے کسی کو کیوں نہ دے دیا؟ عورتوں کو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔“
پہلے زمانے میں شہروں میں بالخصوص مشرق وسطی میں مخصوص انداز سے اجتماعی غسل خانے بنائے جاتے تھے جہاں موسم کے مطابق پانی وغیر ہ مہیا ہوتا تھا اوربعض ایسی بیماریاں جو مالش اور غسل قابل علاج ہوتی تھیں ان کاعلاج بھی کیا جاتا تھا ان میں مرد عورتیں سبھی آتے تھے اور پردے کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا تھا ۔ اسلام نے مرد وزن کے اختلاط اور بے پردگی کو حرام قراردیا اور ان اجتماعی غسل کی بابت بھی اصلاحی ہدایات بیان فرمائیں ۔ ذیل کے ابواب اور احادیث کا تعلق انہی اصلاحات سے ہے ۔
کتاب اللباس
اسلام شرم وحیااورعفت وعصمت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔ شرم وحیا کی حفاظت کے لئے اسلام نے نظام ستر وحجاب انسانیت کو دیا ہے ،لباس جہاں زیب وزینت کا باعث ہے وہاں شرم وحیا کی حفاظت میں موثرترین ہتھیار بھی ہے لہذااسلام نے اپنے ماننے والوں کو ان مقاصد کے حصول کے لئےلباس پہننے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری ہے کہ(يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ)(الاعراف:31)"اے اولاد آدم تم ہر نماز کے وقت زینت اختیار کرو" اس لئے ہر وہ لباس جو شرم وحیاکی ضمانت فراہم کرے اور حسن وجمال کا باعث بنے اس کو پہننے کی اجازت دی گئی ہے ۔ ان دو خوبیوں والے لباس کی بدولت مسلم امت دوسرے لوگوں پر ممتاز دکھائی دیتی ہے ۔ دوسری کوئی تہذیب یا مذہب اسلامی نظام حیا اور لباس جیسا منفرد اور اعلی نظام پیش کرنے سے قاصر ہیں ،ارشاد باری تعالی ہے (يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ)(الاعراف:26)"اے آدم بے شک ہم نے تمہارے لئے ایسا لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہیں چھپاتا ہے اورزینت کا باعث بھی ہےاور تقوی کا لبا س اس سے بڑھ کر ہے ۔ "
محسن انسانیت ،رحمت دوعالم ﷺ نے اپنی امت کو لباس سے متعلق شاندار آداب سکھائے ہیں جنہیں اختیار کرکے مسلمان حسن وآرائش،شرم وحیا کی حفاظت اوراخروی سعادت حاصل کرسکتا ہے ،ان سنہری آداب کو ملحوظ رکھنا ہر مسلمان کی خوش بختی ہے جبکہ ان آداب کوترک کرکے اقوام مغرب کی نفس پرستی کی پیروی کرنا اور ان جیسا لباس تن کرنا،ان جیسی شکل وشباہت اختیار کرنا ،سراسرگمراہی اور ضلالت ہے ۔ اللہ تعالی سب مسلمانوں کو محفوظ فرمائے ۔ (آمین )
تاجدارمدینہ ﷺ کی زبان اقدس سے ارشاد ہونے والےچندآداب درج دیل ہیں :
1۔ مسلمانوں کا لباس دو بنیادی ضروریات کے لئے ہوتاہے ،ستر پوشی اور زینت کا اظہار ،لہذاایسا لباس جو فخرومباہات یا غروروتکبر کی علامت سمجھاجاتا ہو یا جس سے ستر پوشی کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو اسے پہننا غلط اور ناجائز ہوگا ۔ ارشاد نبوی ہے [كُلُوا وَاشْرَبُوا وَتَصَدَّقُوا وَالْبَسُوا مَا لَمْ يُخَالِطْهُ إِسْرَافٌ، أَوْ مَخِيلَةٌ](سنن ابن ماجه ،اللباس،حديث:3205 ،وعلقه البخارى فى اول كتاب اللباس مسند احمد:2/182)"کھائو ،پیو ،پہنو اور صدقہ خیرات کرو مگر اسراف اور تکبرکیے بغیر "
2۔مردوں کے لئے سونا اور ریشمی لباس پہننا حرام ہے جبکہ عورتوں کے لیے یہ دونوں چیزیں حلال ہیں لہذاوہ اپنی زیب وزینت کے لئے استعمال کرسکتی ہیں ۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے[حُرِّمَ لِبَاسُ الحَرِيرِ وَالذَّهَبِ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي وَأُحِلَّ لِإِنَاثِهِمْ](جامع ترمذى ،اللباس ،باب ما جاء فى الحرير والذهب للرجال ،حديث:1720) "میری امت کے مردوں پر ریشمی لباس اور سونا پہننا بھی حرام کردیاہے اور عورتوں کے لئے حلال ہے "
3- لباس کو اتنا لمبا رکھنا کہ وہ زمین پر گھسٹتاہے یہ تکبر اور بڑائی کی علامت ہے ، لہذاایسا لباس پہننا حرام قراردے دیا گیا ہے[مَا أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَيْنِ مِنَ الإِزَارِ فَفِي النَّارِ] (صحيح البخارى،اللباس ،باب ما اسفل من الكعبين فهو فى النار،حديث 5787)"جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے چلا جائے وہ جہنم میں لے جاتا ہے "
4-شریعت اسلامی نے اپنے پیروکاروں کے لئے سفید لباس کو پسند کیا جو وقار کی علامت ہے ،اردشاد نبوی ہے[البَسُوا البَيَاضَ فَإِنَّهَا أَطْهَرُ وَأَطْيَبُ، وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ](جامع الترمذى،الادب ،باب ماجاء فى البياض،حديث:2810)"سفید لباس پہنو یہ زیادہ پاک اور صاف ہوتا ہے اور اپنے مردوں کو اسی میں کفن دو"
5۔مسلمان عورتوں کو ایسا لباس پہننے کا حکم دیا گیا ہے جو زیادہ تر با حیا اور زیادہ باوقار ہو ، لہذا مغرب زدہ فیشن کی پیروی میں تنگ وچست ،باریک اور شفاف لباس پہننا مسلمان عورتوں کے لئے جائز نہیں ۔ ایسا لباس پہننے والوں کوخصوصا رسول اکرم ﷺ نے ڈرایاہے ۔ ارشادگرامی ہے’’ جہنم کے دو گروہ میں نے نہیں دیکھے(یعنی ابھی نمودار نہیں ہوئے)ان میں سے ایک گروہ وہ عورتیں ہیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی (نہایت باریک اور شفاف لباس زین تن کریں گی جن سے اعضا ءواضح نظر آئیں گے )یہ عورتیں جنت کی خوشبو تک نہ پائیں گی ،حالانکہ اس کی خوشبو دور دور تک آئے گی ۔
6۔اسلامی لباس کا ایک اہم اصول مردوزن کے لباس میں نمایاں فرق کاہونا ہے ،لہذاجو مرد عورتوں جیسا یا عورتیں مردوں جیسا لباس ان کے لئے سخت وعیدداردہے ۔
7۔سونے کی انگھوٹھی ،چین یا گھڑی وغیرہ پہننامردوں کےلئے حرام ہے ۔ البتہ چاندی استعمال کرسکتا ہے۔
8۔ایسا تنگ اور بندلباس پہننا جس میں بوقت ضرورت ہاتھ باہر نہ نکل سکیں منع ہے ۔
9۔ایک جوتا پہن کر چلنا منع ہے ۔
10۔لباس یا جوتا وغیر ہ پہنتے وقت دائیں طرف سے پہننا شروع کرے اور اتارٹے وقت بائیں جانب سے شروع کرے ۔
11۔نیا لباس پہنتے وقت اللہ تعالی کی نعمت کے شکر کے اظہار کے لئے دعا پڑھنا چاہیے ۔
12۔مسلمان بھائی کو نیا لباس پہنے دیکھ کر مسنون دعا دینی چاہیے ۔
13۔کنگھی کرتے وقت دائیں جانب سے شروع کرنا اور سرکے درمیان سے مانگ نکالنا سنت ہے ۔
جناب عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک گھاٹی سے نیچے اترے۔ آپ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ میں نے ایک اکہری چادر لی ہوئی تھی جو ہلکے عصفری رنگ سے رنگی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”تم نے یہ کیسی چادر اپنے اوپر لی ہوئی ہے۔“ میں آپ ﷺ کی ناپسندیدگی کی وجہ سمجھ گیا۔ پھر میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا اور وہ اپنا تنور دہکا رہے تھے تو میں نے اس چادر کو اس میں دے مارا۔ پھر میں اگلے دن آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”عبداللہ! اس چادر کا کیا ہوا؟“ میں نے آپ ﷺ کو بتلایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو نے اسے اپنے گھر والوں میں سے کسی کو کیوں نہ دے دیا؟ عورتوں کو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک گھاٹی سے اترے، آپ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے، اس وقت میں کسم میں رنگی ہوئی چادر اوڑھے ہوئے تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تم نے کیسی چادر اوڑھ رکھی ہے؟“ میں سمجھ گیا کہ یہ آپ کو ناپسند لگی ہے، تو میں اپنے اہل خانہ کے پاس آیا وہ اپنا ایک تنور سلگا رہے تھے تو میں نے اسے اس میں ڈال دیا پھر میں دوسرے دن آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے پوچھا: ”عبداللہ! وہ چادر کیا ہوئی؟“ تو میں نے آپ کو بتایا (کہ میں نے اسے تنور میں ڈال دیا) تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے اسے اپنے گھر کی کسی عورت کو کیوں نہیں پہنا دیا کیونکہ عورتوں کو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Amr ibn al-'As (RA): We came down with the Apostle of Allah (ﷺ) from a turning of a valley. He turned his attention to me and I was wearing a garment dyed with a reddish yellow dye. He asked: What is this garment over you? I recognised what he disliked. I then came to my family who were burning their oven. I threw it (the garment) in it and came to him the next day. He asked: Abdullah, what have you done with the garment? I informed him about it. He said: Why did you not give it to one of your family to wear, for there is no harm in it for women.