Abu-Daud:
Clothing (Kitab Al-Libas)
(Chapter: What A Woman May Show Of Her Beauty)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4104.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ (ان کی بہن) اسماء بنت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہاں آئیں اور انہوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے اپنا منہ موڑ لیا اور فرمایا: ”اے اسماء! بچی جب جوان ہو جائے تو جائز نہیں کہ اس سے کچھ نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے اور آپ ﷺ نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ فرمایا۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ یہ روایت مرسل ہے۔ خالد بن دریک نے سیدہ عائشہ ؓ کو نہیں پایا اور سعید بن بشیر قوی نہیں ہے۔
تشریح:
بعض علماء اس حدیث سے عورت کے لئے چہرہ ننگا رکھنے کا اثبات کرتے ہیں، جو صحیح نہیں۔ کیونکہ احتمال ہے کہ یہ ارشاد حجاب کے احکام نازل ہونے سے پہلے کا ہو، نیز یہ روایت مرسل ہے، جیسے کہ امام ابو داودؒ نے واضح فرمایا ہے اور اس کا ایک راوی سعید بن بشیرازی ضعیف ہے، دیکھیے۔۔ نیز اگلی (حدیث 4106) میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ اپنے پاوں چھپانے کے لئے مضطرب ہوتی تھیں اور حدیث 4118 میں آرہا ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ نے بھی اپنی چادر کا پلو لمبا کرنے کا پوچھا تو آپ ؐ نے ایک پالشت بتایا اس پر انہوں نے عذرکیا کہ اس طرح تو پاون ننگے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔ جب امت کی یہ مائیں کو تمام عورتوں کے لئے انتہائی عظیم قابل قدر نمونہ ہیں، ان کا یہ حال ہے کہ پاوں ننگے ہونے سے پریشان ہوتی ہیں تو کس طرح باور کیا جاسکتا ہے کہ وہ چہرہ ننگے کرنے کو جائز سمجھتی ہوں گی اور کسی کے لئے (عورت ہو یا مرد) اس کا چہرہ ہی منبع حسن وقبح ہوتا ہے، جبکہ امت کے مردوں کو حکم دیا گیا کہ ضرورت کی چیز طلب کرنی ہو تو منہ اٹھائے گھروں کے اندر گھس جایا کرو۔ بلکہ اوٹ کی پیچھے سے طلب کیا کرو، کئی صحیح اور صریح احادیث میں غیر محرم کو اجنبی عورت کے ہاں جانا جائز نہیں اور شوہر کے رشتہ دار مردوں کا گھر میں بے باکانہ اندر آجانا بھی جائز نہیں، بلکہ مرد کے رشتہ دار دیوار اور جیٹھ وغیرہ عورت کے لئے موت ہیں۔ (مسئلہ حجاب اور چہرے کے پردے کی تفصیل اورشافی بحث تفسیر اضواءالبیان، ازعلامہ محمد امین شنقیطی ؒسورءاحزاب میں ملاخطہ ہو۔)
پہلے زمانے میں شہروں میں بالخصوص مشرق وسطی میں مخصوص انداز سے اجتماعی غسل خانے بنائے جاتے تھے جہاں موسم کے مطابق پانی وغیر ہ مہیا ہوتا تھا اوربعض ایسی بیماریاں جو مالش اور غسل قابل علاج ہوتی تھیں ان کاعلاج بھی کیا جاتا تھا ان میں مرد عورتیں سبھی آتے تھے اور پردے کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا تھا ۔ اسلام نے مرد وزن کے اختلاط اور بے پردگی کو حرام قراردیا اور ان اجتماعی غسل کی بابت بھی اصلاحی ہدایات بیان فرمائیں ۔ ذیل کے ابواب اور احادیث کا تعلق انہی اصلاحات سے ہے ۔
کتاب اللباس
اسلام شرم وحیااورعفت وعصمت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔ شرم وحیا کی حفاظت کے لئے اسلام نے نظام ستر وحجاب انسانیت کو دیا ہے ،لباس جہاں زیب وزینت کا باعث ہے وہاں شرم وحیا کی حفاظت میں موثرترین ہتھیار بھی ہے لہذااسلام نے اپنے ماننے والوں کو ان مقاصد کے حصول کے لئےلباس پہننے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری ہے کہ(يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ)(الاعراف:31)"اے اولاد آدم تم ہر نماز کے وقت زینت اختیار کرو" اس لئے ہر وہ لباس جو شرم وحیاکی ضمانت فراہم کرے اور حسن وجمال کا باعث بنے اس کو پہننے کی اجازت دی گئی ہے ۔ ان دو خوبیوں والے لباس کی بدولت مسلم امت دوسرے لوگوں پر ممتاز دکھائی دیتی ہے ۔ دوسری کوئی تہذیب یا مذہب اسلامی نظام حیا اور لباس جیسا منفرد اور اعلی نظام پیش کرنے سے قاصر ہیں ،ارشاد باری تعالی ہے (يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ)(الاعراف:26)"اے آدم بے شک ہم نے تمہارے لئے ایسا لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہیں چھپاتا ہے اورزینت کا باعث بھی ہےاور تقوی کا لبا س اس سے بڑھ کر ہے ۔ "
محسن انسانیت ،رحمت دوعالم ﷺ نے اپنی امت کو لباس سے متعلق شاندار آداب سکھائے ہیں جنہیں اختیار کرکے مسلمان حسن وآرائش،شرم وحیا کی حفاظت اوراخروی سعادت حاصل کرسکتا ہے ،ان سنہری آداب کو ملحوظ رکھنا ہر مسلمان کی خوش بختی ہے جبکہ ان آداب کوترک کرکے اقوام مغرب کی نفس پرستی کی پیروی کرنا اور ان جیسا لباس تن کرنا،ان جیسی شکل وشباہت اختیار کرنا ،سراسرگمراہی اور ضلالت ہے ۔ اللہ تعالی سب مسلمانوں کو محفوظ فرمائے ۔ (آمین )
تاجدارمدینہ ﷺ کی زبان اقدس سے ارشاد ہونے والےچندآداب درج دیل ہیں :
1۔ مسلمانوں کا لباس دو بنیادی ضروریات کے لئے ہوتاہے ،ستر پوشی اور زینت کا اظہار ،لہذاایسا لباس جو فخرومباہات یا غروروتکبر کی علامت سمجھاجاتا ہو یا جس سے ستر پوشی کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو اسے پہننا غلط اور ناجائز ہوگا ۔ ارشاد نبوی ہے [كُلُوا وَاشْرَبُوا وَتَصَدَّقُوا وَالْبَسُوا مَا لَمْ يُخَالِطْهُ إِسْرَافٌ، أَوْ مَخِيلَةٌ](سنن ابن ماجه ،اللباس،حديث:3205 ،وعلقه البخارى فى اول كتاب اللباس مسند احمد:2/182)"کھائو ،پیو ،پہنو اور صدقہ خیرات کرو مگر اسراف اور تکبرکیے بغیر "
2۔مردوں کے لئے سونا اور ریشمی لباس پہننا حرام ہے جبکہ عورتوں کے لیے یہ دونوں چیزیں حلال ہیں لہذاوہ اپنی زیب وزینت کے لئے استعمال کرسکتی ہیں ۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے[حُرِّمَ لِبَاسُ الحَرِيرِ وَالذَّهَبِ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي وَأُحِلَّ لِإِنَاثِهِمْ](جامع ترمذى ،اللباس ،باب ما جاء فى الحرير والذهب للرجال ،حديث:1720) "میری امت کے مردوں پر ریشمی لباس اور سونا پہننا بھی حرام کردیاہے اور عورتوں کے لئے حلال ہے "
3- لباس کو اتنا لمبا رکھنا کہ وہ زمین پر گھسٹتاہے یہ تکبر اور بڑائی کی علامت ہے ، لہذاایسا لباس پہننا حرام قراردے دیا گیا ہے[مَا أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَيْنِ مِنَ الإِزَارِ فَفِي النَّارِ] (صحيح البخارى،اللباس ،باب ما اسفل من الكعبين فهو فى النار،حديث 5787)"جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے چلا جائے وہ جہنم میں لے جاتا ہے "
4-شریعت اسلامی نے اپنے پیروکاروں کے لئے سفید لباس کو پسند کیا جو وقار کی علامت ہے ،اردشاد نبوی ہے[البَسُوا البَيَاضَ فَإِنَّهَا أَطْهَرُ وَأَطْيَبُ، وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ](جامع الترمذى،الادب ،باب ماجاء فى البياض،حديث:2810)"سفید لباس پہنو یہ زیادہ پاک اور صاف ہوتا ہے اور اپنے مردوں کو اسی میں کفن دو"
5۔مسلمان عورتوں کو ایسا لباس پہننے کا حکم دیا گیا ہے جو زیادہ تر با حیا اور زیادہ باوقار ہو ، لہذا مغرب زدہ فیشن کی پیروی میں تنگ وچست ،باریک اور شفاف لباس پہننا مسلمان عورتوں کے لئے جائز نہیں ۔ ایسا لباس پہننے والوں کوخصوصا رسول اکرم ﷺ نے ڈرایاہے ۔ ارشادگرامی ہے’’ جہنم کے دو گروہ میں نے نہیں دیکھے(یعنی ابھی نمودار نہیں ہوئے)ان میں سے ایک گروہ وہ عورتیں ہیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی (نہایت باریک اور شفاف لباس زین تن کریں گی جن سے اعضا ءواضح نظر آئیں گے )یہ عورتیں جنت کی خوشبو تک نہ پائیں گی ،حالانکہ اس کی خوشبو دور دور تک آئے گی ۔
6۔اسلامی لباس کا ایک اہم اصول مردوزن کے لباس میں نمایاں فرق کاہونا ہے ،لہذاجو مرد عورتوں جیسا یا عورتیں مردوں جیسا لباس ان کے لئے سخت وعیدداردہے ۔
7۔سونے کی انگھوٹھی ،چین یا گھڑی وغیرہ پہننامردوں کےلئے حرام ہے ۔ البتہ چاندی استعمال کرسکتا ہے۔
8۔ایسا تنگ اور بندلباس پہننا جس میں بوقت ضرورت ہاتھ باہر نہ نکل سکیں منع ہے ۔
9۔ایک جوتا پہن کر چلنا منع ہے ۔
10۔لباس یا جوتا وغیر ہ پہنتے وقت دائیں طرف سے پہننا شروع کرے اور اتارٹے وقت بائیں جانب سے شروع کرے ۔
11۔نیا لباس پہنتے وقت اللہ تعالی کی نعمت کے شکر کے اظہار کے لئے دعا پڑھنا چاہیے ۔
12۔مسلمان بھائی کو نیا لباس پہنے دیکھ کر مسنون دعا دینی چاہیے ۔
13۔کنگھی کرتے وقت دائیں جانب سے شروع کرنا اور سرکے درمیان سے مانگ نکالنا سنت ہے ۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ (ان کی بہن) اسماء بنت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہاں آئیں اور انہوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے اپنا منہ موڑ لیا اور فرمایا: ”اے اسماء! بچی جب جوان ہو جائے تو جائز نہیں کہ اس سے کچھ نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے اور آپ ﷺ نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ فرمایا۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ یہ روایت مرسل ہے۔ خالد بن دریک نے سیدہ عائشہ ؓ کو نہیں پایا اور سعید بن بشیر قوی نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
بعض علماء اس حدیث سے عورت کے لئے چہرہ ننگا رکھنے کا اثبات کرتے ہیں، جو صحیح نہیں۔ کیونکہ احتمال ہے کہ یہ ارشاد حجاب کے احکام نازل ہونے سے پہلے کا ہو، نیز یہ روایت مرسل ہے، جیسے کہ امام ابو داودؒ نے واضح فرمایا ہے اور اس کا ایک راوی سعید بن بشیرازی ضعیف ہے، دیکھیے۔۔ نیز اگلی (حدیث 4106) میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ اپنے پاوں چھپانے کے لئے مضطرب ہوتی تھیں اور حدیث 4118 میں آرہا ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ نے بھی اپنی چادر کا پلو لمبا کرنے کا پوچھا تو آپ ؐ نے ایک پالشت بتایا اس پر انہوں نے عذرکیا کہ اس طرح تو پاون ننگے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔ جب امت کی یہ مائیں کو تمام عورتوں کے لئے انتہائی عظیم قابل قدر نمونہ ہیں، ان کا یہ حال ہے کہ پاوں ننگے ہونے سے پریشان ہوتی ہیں تو کس طرح باور کیا جاسکتا ہے کہ وہ چہرہ ننگے کرنے کو جائز سمجھتی ہوں گی اور کسی کے لئے (عورت ہو یا مرد) اس کا چہرہ ہی منبع حسن وقبح ہوتا ہے، جبکہ امت کے مردوں کو حکم دیا گیا کہ ضرورت کی چیز طلب کرنی ہو تو منہ اٹھائے گھروں کے اندر گھس جایا کرو۔ بلکہ اوٹ کی پیچھے سے طلب کیا کرو، کئی صحیح اور صریح احادیث میں غیر محرم کو اجنبی عورت کے ہاں جانا جائز نہیں اور شوہر کے رشتہ دار مردوں کا گھر میں بے باکانہ اندر آجانا بھی جائز نہیں، بلکہ مرد کے رشتہ دار دیوار اور جیٹھ وغیرہ عورت کے لئے موت ہیں۔ (مسئلہ حجاب اور چہرے کے پردے کی تفصیل اورشافی بحث تفسیر اضواءالبیان، ازعلامہ محمد امین شنقیطی ؒسورءاحزاب میں ملاخطہ ہو۔)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، وہ باریک کپڑا پہنے ہوئے تھیں آپ ﷺ نے ان سے منہ پھیر لیا اور فرمایا: ”اسماء! جب عورت بالغ ہو جائے تو درست نہیں کہ اس کی کوئی چیز نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے۔“ آپ ﷺ نے اپنے چہرہ اور ہتھیلیوں کی جانب اشارہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ روایت مرسل ہے خالد بن دریک نے ام المؤمنین عائشہ ؓ کو نہیں پایا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): Asma, daughter of AbuBakr, entered upon the Apostle of Allah (ﷺ) wearing thin clothes. The Apostle of Allah (ﷺ) turned his attention from her. He said: O Asma', when a woman reaches the age of menstruation, it does not suit her that she displays her parts of body except this and this, and he pointed to her face and hands.