Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Time For 'Asr Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
412.
سیدنا ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی، اس نے نماز پا لی، اور جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز پا لی۔“
تشریح:
(1) مذکورہ بالا حدیث صاحب عذر کے لیے ہے مثلا جب کوئی سوتا رہ گیا ہویا بھول گیا ہو اور بالکل آخروقت میں جاگا ہو یا آخروقت میں نماز یاد آئی ہوتو اس کے لیے یہی وقت ہے۔ مگر جو یغیر کسی عذر کے تاخیر کرتے تو اس کے لیے انتہائی مکروہ ہے جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آرہا ہے۔ نماز عصر کے وقت کے سلسلے میں امام نووی کا درج ذیل بیان جو انہوں نے شرح صحیح مسلم میں ذکر کیا ہے بہت اہم ہے: ’’ ہمارے اصحاب (شوافع) کہتے ہیں کہ نماز عصر کےپانچ وقت ہیں: (1) وقت فضیلت۔ (2) وقت اختیار۔ (3) وقت جواز بلاکراہت۔ (4) وقت جواز بالکراہت۔ (5) وقت عذر۔ وقت فضیلت اس کا اول وقت ہے اوروقت اختیار ہر چیز کا سایہ دو مثل ہونے تک ہے اور وقت جواز سورج زرد ہونے تک ہے اور وقت جواز مکروہ سورج عروب ہونے تک ہے اور وقت غذر، ظہر کا وقت ہے یعنی جب کوئی شخص سفر یا بارش وغیرہ کےعذر کی بنا پرظہر اورعصر کوجمع کرلے۔ اور جب سورج غروب ہوجائے تو یہ نماز قضا ہوگی۔،، انتھی
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی، اس نے نماز پا لی، اور جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز پا لی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ بالا حدیث صاحب عذر کے لیے ہے مثلا جب کوئی سوتا رہ گیا ہویا بھول گیا ہو اور بالکل آخروقت میں جاگا ہو یا آخروقت میں نماز یاد آئی ہوتو اس کے لیے یہی وقت ہے۔ مگر جو یغیر کسی عذر کے تاخیر کرتے تو اس کے لیے انتہائی مکروہ ہے جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آرہا ہے۔ نماز عصر کے وقت کے سلسلے میں امام نووی کا درج ذیل بیان جو انہوں نے شرح صحیح مسلم میں ذکر کیا ہے بہت اہم ہے: ’’ ہمارے اصحاب (شوافع) کہتے ہیں کہ نماز عصر کےپانچ وقت ہیں: (1) وقت فضیلت۔ (2) وقت اختیار۔ (3) وقت جواز بلاکراہت۔ (4) وقت جواز بالکراہت۔ (5) وقت عذر۔ وقت فضیلت اس کا اول وقت ہے اوروقت اختیار ہر چیز کا سایہ دو مثل ہونے تک ہے اور وقت جواز سورج زرد ہونے تک ہے اور وقت جواز مکروہ سورج عروب ہونے تک ہے اور وقت غذر، ظہر کا وقت ہے یعنی جب کوئی شخص سفر یا بارش وغیرہ کےعذر کی بنا پرظہر اورعصر کوجمع کرلے۔ اور جب سورج غروب ہوجائے تو یہ نماز قضا ہوگی۔،، انتھی
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز عصر پالی، اور جس شخص نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز فجر پالی۔“
حدیث حاشیہ:
مذکورہ بالاحدیث صاحب عذر کے لیے ہے مثلاً جب کوئی سوتا رہ گیا ہو یا بھول گیا ہو اور بالکل آخر وقت میں جاگا ہو آخر وقت میں نماز یاد آئی ہو تو اس کے لیے یہی وقت ہے۔ مگر جو بغیر کسی عذر کے تاخیر کرے تو اس کے لیے انتہائی مکروہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: If anyone says a rak'ah of the 'Asr prayer before sunset, he has observed (the 'Asr prayer), and if anyone performs a rak'ah of the Fajr prayer, he has observed (the Fajr prayer).