Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: A Man Should Rub His Hands On The Ground After He Has Performed Istinja')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
45.
سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب خلا (رفع حاجت) کے لیے جاتے تو میں آپ ﷺ کے لیے پیالے یا چھاگل میں پانی لے آتا اور آپ ﷺ اس سے استنجاء کر لیتے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا: وکیع کی حدیث میں ہے، پھر اپنا ہاتھ زمین پر رگڑتے، پھر میں آپ ﷺ کے پاس (پانی کا ایک) اور برتن لاتا تو آپ ﷺ اس سے وضو کرتے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اسود بن عامر کی روایت (وکیع کی روایت کے مقابلے میں) زیادہ کامل ہے۔
تشریح:
فائدہ: کچی جگہوں پر استنجا کرنے کے بعد ہاتھ کو زمین پر رگڑ کر مزید صاف کرلینا مستحب ہے تاکہ بوکا شائبہ بھی نہ رہے اور جہاں مٹی میسر نہ ہو وہاں صابن اس کا قائم مقام ہوگا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن، وصححه ابن حبان) . إسناده: أخرجه من طريقين عن شريك عن إبراهيم بن جرير عن المغيرة عن أبي زرعهَ عن أبي هريرة. هكذا وقع في أكثر النسخ: (عن المغيرة) ! ولم ترد في بعض النسخ الخطية المصححة، وهذا هو الصواب؛ لوجوه أربعة ذكرها صاحب العون ، يطول الكلام بإيرادها. وأزيد عليها وجهاً خامساً: أن البيهقي أخرج الحديث في سننه (1/106 و 157) عن المصنف من الوجهين... هكذا على الصواب دون ذكر: (عن المغيرة) ؛ وكذلك هو عند كل من أخرج الحديث كما يأتي. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات؛ إلا أن شريكاً- وهو ابن عبد الله القاضى- سيئ الحفظ، قال الحافظ في التقريب : صدوق يخطئ كثيراً، تغير حفظه منذ ولي القضاء بالكوفة، وكان عادلاً فاضلأ عابداً شديداً على أهل البدع . وقد توبع عليه؛ كما يأتي، فالحديث حسن؛ إن شاء الله تعالى. والحديث أخرجه النسائي وابن ماجه، وأحمد (2/311 و 454) ، وابن حبان في صحيحه (138 و 1402) من طرق عن شريك عن إبراهيم بن جرير عن أبي زرعة بن عمرو بن جرير عن أبي هريرة. وتابعه اْبان بن عبد الله بن أبي حازم؛ إلا أنه خالفه في إسناده فقال: حدثنا إبراهيم بن جرير بن عبد الله عن أبيه... مثله. اْخرجه النسائي والدارمي وابن ماجه والبيهقي. وقال النسائي: هذا أشبه بالصواب من حديث شريك ! وتعقبه ابن التركماتي بقوله: قلت: أبان هذا؛ قال ابن حبان: كان ممن فحش خطأه وانفرد بالمناكير. وشريك القاضي ممن استشهد به مسلم. وحديثه هذا؛ أخرجه ابن حبان في صحيحه ، فلا نسلّم أن حديث أبان أشبه بالصواب منه، ولا يمتنع أن يكون لإبراهيم فيه إسنادان؛ أحدهما: عن أبي زرعة، والآخر: عن أبيه؛ كما مر نطير ذلك . قلت: ويؤيد أنه ليس أشبه بالصواب: أن أبان قد اضطرب فيه: فمرة رواه هكذا عن إبراهيم عن أبيه. ومرة أخرى قال: ثتي مولى لأبي هريرة قال: سمعت أبا هريرة. أخرجه الدارمي والبيهقي، وأحمد (2/358) . وهذا مما يدل على سوء حفظه الذي وصفه به ابن حبان، وكذلك قال الحافط في التقريب : إنه صدوق في حفظه لين . والحديث قال النووي (2/102) : إسناده صحيح؛ إلا أن فيه شريكاً، وقد اختلفوا في الاحتجاج به . قلت: وللحديث شاهد من حديث عائشة وميمونة رضي الله عنهما في حديث غسل الجنابة: أنه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعد غسله فرجه؛ ضرب بيده الأرض فغسلها. وسيأتيان في الكتاب برقم (243 و 244) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب خلا (رفع حاجت) کے لیے جاتے تو میں آپ ﷺ کے لیے پیالے یا چھاگل میں پانی لے آتا اور آپ ﷺ اس سے استنجاء کر لیتے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا: وکیع کی حدیث میں ہے، پھر اپنا ہاتھ زمین پر رگڑتے، پھر میں آپ ﷺ کے پاس (پانی کا ایک) اور برتن لاتا تو آپ ﷺ اس سے وضو کرتے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اسود بن عامر کی روایت (وکیع کی روایت کے مقابلے میں) زیادہ کامل ہے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: کچی جگہوں پر استنجا کرنے کے بعد ہاتھ کو زمین پر رگڑ کر مزید صاف کرلینا مستحب ہے تاکہ بوکا شائبہ بھی نہ رہے اور جہاں مٹی میسر نہ ہو وہاں صابن اس کا قائم مقام ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب پاخانے کے لیے جاتے تو میں پیالے یا چھاگل میں پانی لے کر آپ کے پاس آتا تو آپ ﷺ پاکی حاصل کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وکیع کی روایت میں ہے: ’’پھر آپ ﷺ اپنا ہاتھ زمین پر رگڑتے، پھر میں پانی کا دوسرا برتن آپ کے پاس لاتا تو آپ ﷺ اس سے وضو کرتے۔‘‘ ابوداؤد کہتے ہیں: اسود بن عامر کی حدیث زیادہ کامل ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurayrah (RA): When the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) went to the privy, I took to him water in a small vessel or a skin, and he cleansed himself. He then wiped his hand on the ground. I then took to him another vessel and he performed ablution. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: The tradition is transmitted by al-Aswad b. 'Amir is more perfect.