Abu-Daud:
Types of Blood-Wit (Kitab Al-Diyat)
(Chapter: Retaliation On The Killer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4528.
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک انصاری لڑکی کو قتل کر دیا جو کچھ زیور پہنے ہوئے تھی، اور پھر ایک کنویں میں پھینک دیا اور اس کا سر پتھر سے کچل دیا۔ پھر اسے پکڑ لیا گیا تو اسے نبی کریم ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ ﷺ نے اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے سنگسار کیا جائے حتیٰ کہ مر جائے۔ چنانچہ اسے سنگسار کیا گیا، حتیٰ کہ وہ مر گیا۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ابن جریح نے ایوب سے اسی کی مانند روایت کیا ہے۔
تشریح:
اس حدیث میں رجم (سنگسار) کا مفہوم دیگر روایات کی روشنی میں یہ ہے کہ قصاص میں مجرم کا سر پتھروں میں رکھ کر کچلا گیا تھا۔
٭دیت کی لغوی اوراصطلاحی تعریف"الدية"ودٰی فعل کا مصدرہے جس کےمعنی ہیں "خون کی بہا اداکرنا"عرب کہتےہیں :وديت القتل: أي اعطيت ديته"میں نے مقتول مقتول کی دیت اداکی"دیت کو "عقل"بھی کہا جاتاہے"عقل"کےمعنی "باندھنے"کےہیں۔عرب کارواج تھاکہ وہ مقتول کی دیت کےاونٹ اس کےگھر کےصحن میں باندھ دیتےتھے۔ اس لیےدیت کو عقل کہا جانے لگا۔
٭اصطلاحی تعریف یوں کی گئی ہے: (الدية مال يجب بقتل آدمى حرمين دمه أو بجرحه مقدر شرعاً لا باجتهاد)"دیت سےمرادوہ مال ہے جس کی ادائیگی کسی آزادشخص کو قتل کرنے یازخمی کرنے کی صورت میں واجب ہےاور اس کی مقدار شریعت میں مقررہے ،یہ اجتہادی مسئلہ نہیں ہے ۔
٭دیت کی مشروعیت: اللہ تعالی نے مسلمان کے جان ومال کو دوسروں پر محترم قراردیاہے۔ لہذاان دو میں سے کسی ظلم وزیادتی کی صورت میں ہرجانہ اورخون بہا کی صورت میں سزامقررکردی گئی ہے ،ارشاد بانی ہے (وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ)
"اور جس نے مسلمان شخص کو غلطی سے قتل کردیا تو مومن غلام آزادکرے اوراولیاء(مقتول کے ورثا) کودیت ادا کرے ۔ "
رسول اکر م ﷺنے دیت کی مشروعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:[ فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ القَتِيلِ](صحيح البخارى ،الديات،باب من قتل له قتيل فهو بخير النظرين،حديث:6880)
"جس کا کوئی شخص قتل کردیا جائے اسے دوچیزوں کا اختیار ہے ،اسے دیت دی جائے یاقصاص دلایا جائے ۔ "
٭دیت کی ادائیگی : دیت کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں
1 : اگر قاتل نے عمداقتل کیا ہے اور مقتول کے ورثاقصاص کی بجائے دیت لینے پرراضی ہو گئے ہیں تو دیت قاتل خوداداکرے گا ۔
2 :اگر قتل غلطی سے ہوا تھا یا شبہ عمدکی شکل میں تھا تو دیت قاتل کے رشتہ داروں پر ہوں گی ۔
دیت کی مقداراور تعیین : اللہ تعالی نے انسانی جان کے بلاوجہ تلف کرنے پر سخت سزائیں مقررکی ہیں۔ایک انسانی جان کی قدروقیمت اللہ تعالی کے نزدیک کتنی بلندہے اس کا اندازہ اس ارشادبانی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا) (المائدۃ:32)
"جو شخص کسی کو بغیر اس کے وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فسادمچانے والا ہو، قتل کرڈالے تو گویا ااس نے تمام لوگوں کوقتل کرڈالا اور جو شخص کسی کی جان بچائے تو اس گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا ۔ "لہذاکسی محترم کو ختم کرنے کی سزا نہایت سخت رکھی گئی ہے لیکن غلطی سے بھی کسی کی جان ضائع کردی جائے یا اس کو زخمی کردیا جائے تو اس پر سزائیں مقرر کردی گئی ہیں مثلا :
1 : اگر مقتول مسلمان آزاد مردتھاتو اس کی دیت سواونٹ ہیں اگر اونٹ میسر نہ ہوں تو ایک ہزارمثقال سونا یا بارہ ہزاردرہم چاندی یا دوگائیں ،یا دوہزاربھیڑبکریاں ادا کی جائیں گی ۔ البتہ غلام شخص کی دیت اس کی قیمت کے برابر ہو گی ۔
2 : بعض انسانی اعضا ایسے ہیں کہ جن کے تلف ہونے کی صورت میں مکمل دیت ادا کرنا پڑتی ہے مثلا عقل کا زائل ہونا ،دونوں کان ،دونوں آنکھیں ،زبان ،ناک،خصیتین کٹنے سے قوت جماع ختم ہو جائے ،ریڑھ کی ہڈی ۔ ان میں کسی ایک کے بے کار ہو جانے پر مکمل شخص کی دیت لاگو ہو گی ۔
3 :مذکورہ بالا اعضا میں سے جو جوڑے ہیں مثلا : دو ہاتھ ،دوکان وغیرہ ان میں سے ایک تلف تو نصف دیت واجب ہو گی ۔
4 :اس کے علاوہ مختلف زخموں کی نوعیت کے لحاظ سے دیت کی مقدارمختلف ہے ۔
تمہید باب
اسلام میں اورسابقہ ملتوں میں بھی یہ امر مسلم ہے کہ اگر کہیں کسی سے قتل عمد جیسا بڑا اور سنگین جرم سرزردہو جائے اس میں قصاص یعنی بدلہ لازم آتا ہے،سوائےاس کے مقتول کےوارث بابکل معاف کردیں یا مال کی صورت میںخون بہا لینا قبول کرلیں،قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے (أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ)(المائدہ:45) "جان کے بدلے جان "(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى) (البقرہ:178)"اے ایمان والو ! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے "
(وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ)(البقرہ:179)" عقل مندو!قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے "
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک انصاری لڑکی کو قتل کر دیا جو کچھ زیور پہنے ہوئے تھی، اور پھر ایک کنویں میں پھینک دیا اور اس کا سر پتھر سے کچل دیا۔ پھر اسے پکڑ لیا گیا تو اسے نبی کریم ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ ﷺ نے اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے سنگسار کیا جائے حتیٰ کہ مر جائے۔ چنانچہ اسے سنگسار کیا گیا، حتیٰ کہ وہ مر گیا۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ابن جریح نے ایوب سے اسی کی مانند روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رجم (سنگسار) کا مفہوم دیگر روایات کی روشنی میں یہ ہے کہ قصاص میں مجرم کا سر پتھروں میں رکھ کر کچلا گیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے انصار کی ایک لونڈی کو اس کے زیور کی وجہ سے قتل کر دیا، پھر اسے ایک کنوئیں میں ڈال کر اس کا سر پتھر سے کچل دیا، تو اسے پکڑ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ نے اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جائے، یہاں تک کہ وہ مر جائے تو اسے رجم کر دیا گیا، یہاں تک کہ وہ مر گیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن جریج نے ایوب سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): A Jew killed a girl of the Ansar for her ornaments. He then threw her in a well, and crushed her head with stones. He was then arrested and brought to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم). He ordered regarding him that he should be stoned to death. He was then stoned till he died. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: It has been transmitted by Ibn Juraij from Ayyub in a similar way.