Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: On (The Reward) Of Building Masajid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
454.
سیدنا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی کا احاطہٰ دراصل بنی نجار کا باغ تھا اور اس میں کچھ کھیتی، کھجوریں اور مشرکین کی قبریں تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھ سے اس کی قیمت لے لو۔“ تو انہوں نے کہا کہ ہم اس کی قیمت نہیں لیں گے۔ چنانچہ کھجوریں کاٹ دی گئیں، کھیتی کو برابر کر دیا گیا اور مشرکین کی قبروں کو اکھیڑ دیا گیا۔ اور پوری حدیث بیان کی۔ (مذکورہ شعر میں) «فانصر» کی جگہ «فاغفر» کا لفظ بیان کیا ہے۔ یعنی ”بخش دے۔“ موسیٰ (موسیٰ بن اسماعیل) کہتے ہیں کہ عبدالواث نے ہم سے اس کی مانند بیان کیا اور عبدالوارث «خرب» ”کھنڈر“ بیان کرتے تھے۔ (نہ کہ «خرث») اور کہتے تھے کہ میں نے ہی حماد کو یہ حدیث بیان کی ہے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے باوجود انصار کے محبوب ہونے کے، ان کے قطعہ زمین پرجبراً یا بغیر اجازت کوئی تصرف نہیں فرمایا۔ اسی لیے معروف مسئلہ ہے کہ ’’غصب کروہ زمیں میں نماز جائز نہیں،،۔ (2)قبر پر یا قبرستان میں نماز جائز نہیں، اسی لیے نبی ﷺ نے قبریں کھدوا ڈالیں۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی کا احاطہٰ دراصل بنی نجار کا باغ تھا اور اس میں کچھ کھیتی، کھجوریں اور مشرکین کی قبریں تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھ سے اس کی قیمت لے لو۔“ تو انہوں نے کہا کہ ہم اس کی قیمت نہیں لیں گے۔ چنانچہ کھجوریں کاٹ دی گئیں، کھیتی کو برابر کر دیا گیا اور مشرکین کی قبروں کو اکھیڑ دیا گیا۔ اور پوری حدیث بیان کی۔ (مذکورہ شعر میں) «فانصر» کی جگہ «فاغفر» کا لفظ بیان کیا ہے۔ یعنی ”بخش دے۔“ موسیٰ (موسیٰ بن اسماعیل) کہتے ہیں کہ عبدالواث نے ہم سے اس کی مانند بیان کیا اور عبدالوارث «خرب» ”کھنڈر“ بیان کرتے تھے۔ (نہ کہ «خرث») اور کہتے تھے کہ میں نے ہی حماد کو یہ حدیث بیان کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے باوجود انصار کے محبوب ہونے کے، ان کے قطعہ زمین پرجبراً یا بغیر اجازت کوئی تصرف نہیں فرمایا۔ اسی لیے معروف مسئلہ ہے کہ ’’غصب کروہ زمیں میں نماز جائز نہیں،،۔ (2)قبر پر یا قبرستان میں نماز جائز نہیں، اسی لیے نبی ﷺ نے قبریں کھدوا ڈالیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ مسجد نبوی کی جگہ پر قبیلہ بنو نجار کا ایک باغ تھا، اس میں کچھ کھیت، کچھ کھجور کے درخت اور مشرکوں کی قبریں تھیں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”مجھ سے اس کی قیمت لے لو۔“ انہوں نے کہا: ہم اس کی قیمت نہیں چاہتے، تو کھجور کے درخت کاٹے گئے، کھیت برابر کئے گئے اور مشرکین کی قبریں کھدوائی گئیں، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، مگر اس حدیث میں لفظ «فانصر» کی جگہ لفظ «فاغفر» ہے (یعنی اے اللہ! تو انصار و مہاجرین کو بخش دے)۔ موسیٰ نے کہا: ہم سے عبدالوارث نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے اور عبدالوارث «خرث» کے بجائے «خرب» (ویرانے) کی روایت کرتے ہیں، عبدالوارث کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہی حماد سے یہ حدیث بیان کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas b. Malik (RA) said: The Mosque (of the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم) was built in the land of Banu al-Najjar which contained crops, palm trees and graves of the disbelievers. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: Sell it to me for some price. They (Banu al-Najjar) replied: We do not want (any price). The palm-trees were cut off, and the crops removed and the graves of the disbelievers dug opened. He then narrated the rest of the tradition. But this version has the word "forgive" in the verse, instead of the word "help". Musa said: 'Abd al-Warith also narrated this tradition in a like manner. The version of 'Abd al-Warith has the word "dung-hill" (instead of crop), and he asserted that he narrated this tradition to Hammad.