Abu-Daud:
Types of Blood-Wit (Kitab Al-Diyat)
(Chapter: The Diyah Of A Mukatib)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4582.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ”مکاتب پر جب کوئی حد لازم آ رہی ہو یا کسی کا وارث بن رہا ہو تو جس نسبت سے آزاد ہو چکا ہو اسی حساب سے حد لاگو ہو گی یا وراثت کا حصہ پائے گا۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں اس روایت کو وہیب نے بسند ایوب، عکرمہ سے انہوں نے سیدنا علی ؓ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ اور حماد بن زید اور اسماعیل نے بواسطہ ایوب، عکرمہ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مرسل روایت کیا ہے، جبکہ اسماعیل بن علیہ نے اسے عکرمہ کا قول بنایا ہے۔
تشریح:
اسلام نے جس انداز سے غلاموں کے حقوق کا تحفظ کیا ہے کسی اور ملت میں نہیں ہے۔ غلام اگر آدھا آزاد ہو چکا ہو غلام ہو تو آدھی دیت آزاد کی اور باقی غلام کی ادا کی جائے گی۔ اسی طرح امور باقی امور میں بھی ہے۔
٭دیت کی لغوی اوراصطلاحی تعریف"الدية"ودٰی فعل کا مصدرہے جس کےمعنی ہیں "خون کی بہا اداکرنا"عرب کہتےہیں :وديت القتل: أي اعطيت ديته"میں نے مقتول مقتول کی دیت اداکی"دیت کو "عقل"بھی کہا جاتاہے"عقل"کےمعنی "باندھنے"کےہیں۔عرب کارواج تھاکہ وہ مقتول کی دیت کےاونٹ اس کےگھر کےصحن میں باندھ دیتےتھے۔ اس لیےدیت کو عقل کہا جانے لگا۔
٭اصطلاحی تعریف یوں کی گئی ہے: (الدية مال يجب بقتل آدمى حرمين دمه أو بجرحه مقدر شرعاً لا باجتهاد)"دیت سےمرادوہ مال ہے جس کی ادائیگی کسی آزادشخص کو قتل کرنے یازخمی کرنے کی صورت میں واجب ہےاور اس کی مقدار شریعت میں مقررہے ،یہ اجتہادی مسئلہ نہیں ہے ۔
٭دیت کی مشروعیت: اللہ تعالی نے مسلمان کے جان ومال کو دوسروں پر محترم قراردیاہے۔ لہذاان دو میں سے کسی ظلم وزیادتی کی صورت میں ہرجانہ اورخون بہا کی صورت میں سزامقررکردی گئی ہے ،ارشاد بانی ہے (وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ)
"اور جس نے مسلمان شخص کو غلطی سے قتل کردیا تو مومن غلام آزادکرے اوراولیاء(مقتول کے ورثا) کودیت ادا کرے ۔ "
رسول اکر م ﷺنے دیت کی مشروعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:[ فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ القَتِيلِ](صحيح البخارى ،الديات،باب من قتل له قتيل فهو بخير النظرين،حديث:6880)
"جس کا کوئی شخص قتل کردیا جائے اسے دوچیزوں کا اختیار ہے ،اسے دیت دی جائے یاقصاص دلایا جائے ۔ "
٭دیت کی ادائیگی : دیت کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں
1 : اگر قاتل نے عمداقتل کیا ہے اور مقتول کے ورثاقصاص کی بجائے دیت لینے پرراضی ہو گئے ہیں تو دیت قاتل خوداداکرے گا ۔
2 :اگر قتل غلطی سے ہوا تھا یا شبہ عمدکی شکل میں تھا تو دیت قاتل کے رشتہ داروں پر ہوں گی ۔
دیت کی مقداراور تعیین : اللہ تعالی نے انسانی جان کے بلاوجہ تلف کرنے پر سخت سزائیں مقررکی ہیں۔ایک انسانی جان کی قدروقیمت اللہ تعالی کے نزدیک کتنی بلندہے اس کا اندازہ اس ارشادبانی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا) (المائدۃ:32)
"جو شخص کسی کو بغیر اس کے وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فسادمچانے والا ہو، قتل کرڈالے تو گویا ااس نے تمام لوگوں کوقتل کرڈالا اور جو شخص کسی کی جان بچائے تو اس گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا ۔ "لہذاکسی محترم کو ختم کرنے کی سزا نہایت سخت رکھی گئی ہے لیکن غلطی سے بھی کسی کی جان ضائع کردی جائے یا اس کو زخمی کردیا جائے تو اس پر سزائیں مقرر کردی گئی ہیں مثلا :
1 : اگر مقتول مسلمان آزاد مردتھاتو اس کی دیت سواونٹ ہیں اگر اونٹ میسر نہ ہوں تو ایک ہزارمثقال سونا یا بارہ ہزاردرہم چاندی یا دوگائیں ،یا دوہزاربھیڑبکریاں ادا کی جائیں گی ۔ البتہ غلام شخص کی دیت اس کی قیمت کے برابر ہو گی ۔
2 : بعض انسانی اعضا ایسے ہیں کہ جن کے تلف ہونے کی صورت میں مکمل دیت ادا کرنا پڑتی ہے مثلا عقل کا زائل ہونا ،دونوں کان ،دونوں آنکھیں ،زبان ،ناک،خصیتین کٹنے سے قوت جماع ختم ہو جائے ،ریڑھ کی ہڈی ۔ ان میں کسی ایک کے بے کار ہو جانے پر مکمل شخص کی دیت لاگو ہو گی ۔
3 :مذکورہ بالا اعضا میں سے جو جوڑے ہیں مثلا : دو ہاتھ ،دوکان وغیرہ ان میں سے ایک تلف تو نصف دیت واجب ہو گی ۔
4 :اس کے علاوہ مختلف زخموں کی نوعیت کے لحاظ سے دیت کی مقدارمختلف ہے ۔
تمہید باب
ایسا غلام جس نے اپنے مالک سے معاہدہ کیا ہو کہ میں اس قدر رقمدے کر آزاد ہو جاؤں گا تو وہ اس مدت میں "مکاتب "کہلاتا ہے (مکاتب 'تاکے زبر کے ساتھ )
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ”مکاتب پر جب کوئی حد لازم آ رہی ہو یا کسی کا وارث بن رہا ہو تو جس نسبت سے آزاد ہو چکا ہو اسی حساب سے حد لاگو ہو گی یا وراثت کا حصہ پائے گا۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں اس روایت کو وہیب نے بسند ایوب، عکرمہ سے انہوں نے سیدنا علی ؓ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ اور حماد بن زید اور اسماعیل نے بواسطہ ایوب، عکرمہ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مرسل روایت کیا ہے، جبکہ اسماعیل بن علیہ نے اسے عکرمہ کا قول بنایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اسلام نے جس انداز سے غلاموں کے حقوق کا تحفظ کیا ہے کسی اور ملت میں نہیں ہے۔ غلام اگر آدھا آزاد ہو چکا ہو غلام ہو تو آدھی دیت آزاد کی اور باقی غلام کی ادا کی جائے گی۔ اسی طرح امور باقی امور میں بھی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب مکاتب کوئی حد کا کام کرے یا ترکے کا وارث ہو تو جس قدر آزاد ہوا ہے وہ اسی قدر وارث ہو گا۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے وہیب نے ایوب سے، ایوب نے عکرمہ سے، عکرمہ نے علی ؓ سے اور علی نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ اور حماد بن زید اور اسماعیل نے ایوب سے، ایوب نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ اور اسماعیل بن علیہ نے اسے عکرمہ کا قول قرار دیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) said: When a mukatab (a slave who has made an agreement to purchase his freedom) gifts blood-money or an inheritance, he can inherit in accordance with the extent to which he has been emancipated.