باب: اپنا دفاع کرتے ہوئے اگر حملہ آور کا کوئی نقصان ہو جائے یا اسے ضرب لگ جائےفقیر لوگوں کا غلام کسی قابل دیت جرم کا ارتکاب کر بیٹھے تو؟
)
Abu-Daud:
Types of Blood-Wit (Kitab Al-Diyat)
(Chapter: The Crime Of A Slave Who Belongs To Poor People)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4590.
سیدنا عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ فقیر لوگوں کا ایک غلام تھا، اس نے امیر لوگوں کے ایک غلام کا کان کاٹ دیا یہ (امیر) لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس مقدمہ لے آئے تو دوسروں نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم لوگ فقیر ہیں، تو آپ ﷺ نے ان پر کوئی چیز نہ ڈالی۔
تشریح:
1: بعض محققین کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے۔ 2: اس حدیث میں غلام کا ایک ترجمہ معروف معنی میں ہے کہ وہ عبد مملوک تھے، چونکہ یہ معاملہ مملوکوں کے مابین تھا اور قصور کے مالک فقیر بھی تھے، اس لئے ان پر کچھ نہ ڈالا گیا اور دوسرا ترجمہ نو عمر لڑکے بھی کیا گیا ہے، یعنی وہ آزاد تھے، مگر ان کے لڑکپن، خطا اور قصور کے ولی فقیر ہونے کی وجہ سے ان پر کچھ نہ ڈالا۔
٭دیت کی لغوی اوراصطلاحی تعریف"الدية"ودٰی فعل کا مصدرہے جس کےمعنی ہیں "خون کی بہا اداکرنا"عرب کہتےہیں :وديت القتل: أي اعطيت ديته"میں نے مقتول مقتول کی دیت اداکی"دیت کو "عقل"بھی کہا جاتاہے"عقل"کےمعنی "باندھنے"کےہیں۔عرب کارواج تھاکہ وہ مقتول کی دیت کےاونٹ اس کےگھر کےصحن میں باندھ دیتےتھے۔ اس لیےدیت کو عقل کہا جانے لگا۔
٭اصطلاحی تعریف یوں کی گئی ہے: (الدية مال يجب بقتل آدمى حرمين دمه أو بجرحه مقدر شرعاً لا باجتهاد)"دیت سےمرادوہ مال ہے جس کی ادائیگی کسی آزادشخص کو قتل کرنے یازخمی کرنے کی صورت میں واجب ہےاور اس کی مقدار شریعت میں مقررہے ،یہ اجتہادی مسئلہ نہیں ہے ۔
٭دیت کی مشروعیت: اللہ تعالی نے مسلمان کے جان ومال کو دوسروں پر محترم قراردیاہے۔ لہذاان دو میں سے کسی ظلم وزیادتی کی صورت میں ہرجانہ اورخون بہا کی صورت میں سزامقررکردی گئی ہے ،ارشاد بانی ہے (وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ)
"اور جس نے مسلمان شخص کو غلطی سے قتل کردیا تو مومن غلام آزادکرے اوراولیاء(مقتول کے ورثا) کودیت ادا کرے ۔ "
رسول اکر م ﷺنے دیت کی مشروعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:[ فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ القَتِيلِ](صحيح البخارى ،الديات،باب من قتل له قتيل فهو بخير النظرين،حديث:6880)
"جس کا کوئی شخص قتل کردیا جائے اسے دوچیزوں کا اختیار ہے ،اسے دیت دی جائے یاقصاص دلایا جائے ۔ "
٭دیت کی ادائیگی : دیت کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں
1 : اگر قاتل نے عمداقتل کیا ہے اور مقتول کے ورثاقصاص کی بجائے دیت لینے پرراضی ہو گئے ہیں تو دیت قاتل خوداداکرے گا ۔
2 :اگر قتل غلطی سے ہوا تھا یا شبہ عمدکی شکل میں تھا تو دیت قاتل کے رشتہ داروں پر ہوں گی ۔
دیت کی مقداراور تعیین : اللہ تعالی نے انسانی جان کے بلاوجہ تلف کرنے پر سخت سزائیں مقررکی ہیں۔ایک انسانی جان کی قدروقیمت اللہ تعالی کے نزدیک کتنی بلندہے اس کا اندازہ اس ارشادبانی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا) (المائدۃ:32)
"جو شخص کسی کو بغیر اس کے وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فسادمچانے والا ہو، قتل کرڈالے تو گویا ااس نے تمام لوگوں کوقتل کرڈالا اور جو شخص کسی کی جان بچائے تو اس گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا ۔ "لہذاکسی محترم کو ختم کرنے کی سزا نہایت سخت رکھی گئی ہے لیکن غلطی سے بھی کسی کی جان ضائع کردی جائے یا اس کو زخمی کردیا جائے تو اس پر سزائیں مقرر کردی گئی ہیں مثلا :
1 : اگر مقتول مسلمان آزاد مردتھاتو اس کی دیت سواونٹ ہیں اگر اونٹ میسر نہ ہوں تو ایک ہزارمثقال سونا یا بارہ ہزاردرہم چاندی یا دوگائیں ،یا دوہزاربھیڑبکریاں ادا کی جائیں گی ۔ البتہ غلام شخص کی دیت اس کی قیمت کے برابر ہو گی ۔
2 : بعض انسانی اعضا ایسے ہیں کہ جن کے تلف ہونے کی صورت میں مکمل دیت ادا کرنا پڑتی ہے مثلا عقل کا زائل ہونا ،دونوں کان ،دونوں آنکھیں ،زبان ،ناک،خصیتین کٹنے سے قوت جماع ختم ہو جائے ،ریڑھ کی ہڈی ۔ ان میں کسی ایک کے بے کار ہو جانے پر مکمل شخص کی دیت لاگو ہو گی ۔
3 :مذکورہ بالا اعضا میں سے جو جوڑے ہیں مثلا : دو ہاتھ ،دوکان وغیرہ ان میں سے ایک تلف تو نصف دیت واجب ہو گی ۔
4 :اس کے علاوہ مختلف زخموں کی نوعیت کے لحاظ سے دیت کی مقدارمختلف ہے ۔
سیدنا عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ فقیر لوگوں کا ایک غلام تھا، اس نے امیر لوگوں کے ایک غلام کا کان کاٹ دیا یہ (امیر) لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس مقدمہ لے آئے تو دوسروں نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم لوگ فقیر ہیں، تو آپ ﷺ نے ان پر کوئی چیز نہ ڈالی۔
حدیث حاشیہ:
1: بعض محققین کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے۔ 2: اس حدیث میں غلام کا ایک ترجمہ معروف معنی میں ہے کہ وہ عبد مملوک تھے، چونکہ یہ معاملہ مملوکوں کے مابین تھا اور قصور کے مالک فقیر بھی تھے، اس لئے ان پر کچھ نہ ڈالا گیا اور دوسرا ترجمہ نو عمر لڑکے بھی کیا گیا ہے، یعنی وہ آزاد تھے، مگر ان کے لڑکپن، خطا اور قصور کے ولی فقیر ہونے کی وجہ سے ان پر کچھ نہ ڈالا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ فقیر لوگوں کے ایک غلام نے کچھ مالدار لوگوں کے ایک غلام کا کان کاٹ لیا، تو جس غلام نے کان کاٹا تھا، اس کے مالکان نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! ہم فقیر لوگ ہیں، تو آپ نے ان پر کوئی دیت نہیں ٹھہرائی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Imran ibn Husayn: A servant of some poor people cut off the ear of the servant of some rich people. His people came to the Prophet (ﷺ) and said: Apostle of Allah (ﷺ)! we are poor people. So he imposed no compensation on them.