Abu-Daud:
Model Behavior of the Prophet (Kitab Al-Sunnah)
(Chapter: The Caliphs)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4654.
سیدنا ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شاید کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر نظر فرمائی ہے اور کہا ہے کہ جو چاہے عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔“
تشریح:
1۔ جب دین کی سر بلندی کے لیے یہ لوگ خود کو قربان کرنے پر تل گئے تو ان کو اخلاص اور ایمان کا اعلی ترین معیار حاصل ہو گیا۔ اس لیے ان کو ایسی عظیم خوشخبری دی گئی۔ ان کا یہ عظیم عمل ان کے باقی تمام اعمال سے چاہے وہ مثبت ہوں یا منفی بہت بڑا تھا۔ 2۔ حدیث میں مذکورہ فرمان کا یہ مفہوم ہرگز نہیں تھا کہ وہ شرعی اور اخلاقی حدود وقیود سے مبرا ہوگئے تھے۔ نہیں بلکہ اس بیان میں ان کے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے یہ خبر صادق ہے کہ یہ لوگ تا حیات دین وشریعت کے تقاضے پورے کرتے رہیں گے اور ان سے کوئی ایسا عمل سرزد نہیں ہوگا جو ان کے لیے اللہ عزوجل کی ناراضی یا جہنم میں جانے کا باعث ہو اس میں ان کے معصوم عن الخطا ہونے کا مفہوم نہیں ہے، بلکہ بشارت ہے کہ ان کی تمام تقصیرات معاف کردی جائیں گی۔ رضی اللہ عنہم۔ تو حیف ہے ان لوگوں پر جو ان کی اجتہادی خطاؤں کو نمایاں کرتے اور ان پر طعن و تشنیع کرنا اور تاریخ کی خدمت سمجھتے ہیں۔ فإنا لله و إنا إليه راجعون۔
عربی لغت میں سنت طریق کو کہتے ہیں محدثین اور علمائے اصول کے نزدیک سنت سے مراد "رسول اللہ ﷺکے اقوال ،اعمال ،تقریرات اور جو کچھ آپ نے کرنے کا ارادہ فرمایا نیزوہ سب کچھ بھی شامل ہے جو آپ ؐ کی طرف سے (امت تک ) پہنچا "۔فتح الباری‘کتاب الاعتصام بالسنۃ
"كتاب السنةايك جامع باب ہے جس میں عقائد اوراعمال دونوں میں رسول ﷺکی پیروی کی اہمیت واضح کی گئی ہے ،رسول ﷺ اور خلفائے راشدین کے بعد واعمال میں جو بھی انحراف سامنے آیا تھا اس کی تفصیلات اور اس حوالے سےرسول ﷺکے اختیار کردی طریق کی وضاحت بیان کی گئی ہے اس کتاب کے موضوعات میں سنت اور اس پیروی ،دعوت الی السنۃ اور اس کا اجر ،امت کا اتفاق واتحاداور وہ فتنےجن سےیہ اتفاق انتشار میں بدلا شامل ہیں ، عقائد ونظریات میں جو انحراف آیااس کے اسباب کا بھی اچھی جائزہ لیا گیا اور منحرف نظریات کے معاملے میں صحیح عقائد کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ نظریاتی انحراف صحابہ کے درمیان تفصیل مسئلہ خلافت کے حوالے سے اختلاف ،حکمرانوں کی آمریت اور سرکشی سے پیدا ہوا اور آہستہ آہستہ ،فتنہ پردازوں نے ایمان ،تقدیر ،صفات باری تعالی ،حشر ونشر ،میزان،شفاعت ،جنت ،دوزخ حتی کہ قرآن کے حوالے سے لوگوں میں شکوک وشبہات پیداکرنے کی کوشش کی ۔
امام ابوداودؒ نے اپنی کتاب کے اس حصے میں ان تمام موضوعات کے حوالے سے صحیح عقائد اور رسول ﷺکی تعلیمات کو پیش کیا ۔ ان فتنوں کے استیصال کا کام محدثین ہی کا کارنامہ ہے ۔ محدثین کے علاوہ دوسر ے علما وقفہاء نے اس میدان میں اس انداز سے کام نہیں کیا بلکہ مختلف فقہی مکاتب فکر کے لوگ خصوصااپنی رائے اور عقل پر اعتماد کرنے والے حضرات خود ان کے فتنوں کا شکار ہو گئے
ابو داودکی "كتاب السنة "اور دیگر محدثین کے متعلقہ ابواب کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتاہے کہ جامعیت کے ساتھ محدثین نے ہر میدان میں کس طرح رہنمائی مہیاکی اور اہل یہود کے حملوں سے اسلام کا دفاع کیا ۔ انہوں نےمحض شرعی اور فقہی امور تک اپنی توجہ محدود نہیں رکھی بلکہ اسلام کے ہر پہلو اور دفاع عن الاسلام کے ہرمیدان میں کمر بستہ رہے ۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شاید کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر نظر فرمائی ہے اور کہا ہے کہ جو چاہے عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ جب دین کی سر بلندی کے لیے یہ لوگ خود کو قربان کرنے پر تل گئے تو ان کو اخلاص اور ایمان کا اعلی ترین معیار حاصل ہو گیا۔ اس لیے ان کو ایسی عظیم خوشخبری دی گئی۔ ان کا یہ عظیم عمل ان کے باقی تمام اعمال سے چاہے وہ مثبت ہوں یا منفی بہت بڑا تھا۔ 2۔ حدیث میں مذکورہ فرمان کا یہ مفہوم ہرگز نہیں تھا کہ وہ شرعی اور اخلاقی حدود وقیود سے مبرا ہوگئے تھے۔ نہیں بلکہ اس بیان میں ان کے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے یہ خبر صادق ہے کہ یہ لوگ تا حیات دین وشریعت کے تقاضے پورے کرتے رہیں گے اور ان سے کوئی ایسا عمل سرزد نہیں ہوگا جو ان کے لیے اللہ عزوجل کی ناراضی یا جہنم میں جانے کا باعث ہو اس میں ان کے معصوم عن الخطا ہونے کا مفہوم نہیں ہے، بلکہ بشارت ہے کہ ان کی تمام تقصیرات معاف کردی جائیں گی۔ رضی اللہ عنہم۔ تو حیف ہے ان لوگوں پر جو ان کی اجتہادی خطاؤں کو نمایاں کرتے اور ان پر طعن و تشنیع کرنا اور تاریخ کی خدمت سمجھتے ہیں۔ فإنا لله و إنا إليه راجعون۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (موسیٰ کی روایت میں «فلعل الله» کا لفظ ہے، اور ابن سنان کی روایت میں «اطلع الله» ہے) ”اللہ تعالیٰ بدر والوں کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں نظر رحمت و مغفرت سے دیکھا تو فرمایا: جو عمل چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان اصحاب بدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کے بعد کوئی عمل اللہ کی منشاء کے خلاف بھی ہو جائے تو وہ ان سے باز پرس نہ فرمائے گا کیونکہ ان کو معاف کر چکا ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کو بد اعمالیوں کی اجازت دی جا رہی ہے یا یہ کہ ان سے دنیا میں بھی باز پرس نہ ہو گی بلکہ اگر خدانخواستہ وہ دنیا میں کوئی عمل قابل حد کر بیٹھے تو حد جاری کی جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying – will be according to the version of Musa : Perhaps Allah, and Ibn Sinan’s version has : Allah looked at the participants of the battle of Badr (with mercy) and said : Do whatever you wish ; I have forgiven you.