Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: What Has Been Narrated About Concerning As-Salat After Entering The Masjid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
468.
جناب عامر بن عبداللہ بن زبیر بنی زریق کے ایک آدمی سے وہ سیدنا ابوقتادہ ؓ سے وہ نبی کریم ﷺ سے اسی کی مانند روایت کرتے ہیں۔ اس میں یہ اضافہ ہے ”پھر اس کے بعد بیٹھا رہے یا چاہے تو اپنے کام کے لیے چلا جائے۔“
تشریح:
تحیۃ المسجد کے حکم میں علماء کا اختلاف رہا ہے۔ اصحاب ظواہر اور کچھ اصحاب الحدیث اس کے وجوب کے قائل ہیں۔ جب کہ جمہور کے نزدیک یہ حکم استحباب ہے۔ اور اوقات غیر مکروہہ سے خاص ہے۔ ہمارے مشائخ کا میلان بھی اس طرف ہے۔ جیسے کہ امام نسائی کی تبویب واستدلال سے ظاہر ہے۔ (باب الرجفة في الجلوس فيه والخروج منه بغير صلوة، حديث: 732) اس ضمن میں وہ حضرت کعب بن مالک کی یہ حدیث لائے ہیں۔ (حتی جئت فلما سلمت تبسم تبسم المغضب ثم قال تعالی فجئت حتی جلست بين يديه) اور آخر میں حدیث ہے۔ (أما هذا فقد صدق فقم حتی يقضي الله فيك فقمت فمضيت) (سنن نسائی حدیث نمبر 732) اس حدیث میں بظاہر یہی ہے کہ انہوں نے تحیۃ المسجد کے نفل نہیں پڑھے تھے۔ دوسرے علماء (إذا) جب بھی مسجد داخل ہو کے عموم سے اوقات مکروہہ میں بھی تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھنے کو مستحب اور بعض واجب قرار دیتے ہیں۔ بہر حال تحیۃ المسجد کا حکم بلاشبہ تاکیدی ہے۔ حتیٰ کے آپ نے اثنائے خطبہ جمعہ میں بھی اس کے پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس لئے غفلت نہیں کرنی چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
وفي رواية عنه عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... نحوه؛ زاد: ثُمَّ لْيَقْعُدْ بَعْدُ إن شاء، أولِيَذْهَبْ لحاجته . (قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري) . إسناده: حدثنا مسدد: ثنا عبد الواحد بن زياد: أنا أبو عميس عُتْبةُ بن عبد الله عن عامر بن عبد الله بن الزبير عن رجل من بني زريق عن أبي قتادة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ والرجل من بني زريق: هو عمرو بن سُلَيْم في الرواية الأولى؛ فإنه منهم (1) . والحديث أخرجه أحمد (5/311) : ثنا وكيع عن أبي العُمَيْس... به دون الزيادة. وهذا على شرطهما. وقد أخرجه الشيخان وغيرهما من طرق عن عامر... به، وقد سبق بيانها عند الرواية الأولى.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب عامر بن عبداللہ بن زبیر بنی زریق کے ایک آدمی سے وہ سیدنا ابوقتادہ ؓ سے وہ نبی کریم ﷺ سے اسی کی مانند روایت کرتے ہیں۔ اس میں یہ اضافہ ہے ”پھر اس کے بعد بیٹھا رہے یا چاہے تو اپنے کام کے لیے چلا جائے۔“
حدیث حاشیہ:
تحیۃ المسجد کے حکم میں علماء کا اختلاف رہا ہے۔ اصحاب ظواہر اور کچھ اصحاب الحدیث اس کے وجوب کے قائل ہیں۔ جب کہ جمہور کے نزدیک یہ حکم استحباب ہے۔ اور اوقات غیر مکروہہ سے خاص ہے۔ ہمارے مشائخ کا میلان بھی اس طرف ہے۔ جیسے کہ امام نسائی کی تبویب واستدلال سے ظاہر ہے۔ (باب الرجفة في الجلوس فيه والخروج منه بغير صلوة، حديث: 732) اس ضمن میں وہ حضرت کعب بن مالک کی یہ حدیث لائے ہیں۔ (حتی جئت فلما سلمت تبسم تبسم المغضب ثم قال تعالی فجئت حتی جلست بين يديه) اور آخر میں حدیث ہے۔ (أما هذا فقد صدق فقم حتی يقضي الله فيك فقمت فمضيت) (سنن نسائی حدیث نمبر 732) اس حدیث میں بظاہر یہی ہے کہ انہوں نے تحیۃ المسجد کے نفل نہیں پڑھے تھے۔ دوسرے علماء (إذا) جب بھی مسجد داخل ہو کے عموم سے اوقات مکروہہ میں بھی تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھنے کو مستحب اور بعض واجب قرار دیتے ہیں۔ بہر حال تحیۃ المسجد کا حکم بلاشبہ تاکیدی ہے۔ حتیٰ کے آپ نے اثنائے خطبہ جمعہ میں بھی اس کے پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس لئے غفلت نہیں کرنی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی ابوقتادہ ؓ سے اسی طرح مرفوعاً مروی ہے، اس میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر اس کے بعد چاہے تو وہ بیٹھا رہے یا اپنی ضرورت کے لیے چلا جائے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
This tradition has been narrated by Abu Qatadah (RA) through a different chain of transmitters to the same effect from the prophet (صلی اللہ علیہ وسلم). This version adds: then he may remain sitting (after praying two RAKAHS) or may go for his work.