Abu-Daud:
Model Behavior of the Prophet (Kitab Al-Sunnah)
(Chapter: Belief In Divine Decree)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4707.
سیدنا ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سیدنا خضر ؑ نے لڑکے کو دیکھا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ تو انہوں نے اس کا سر پکڑ کر مروڑ دیا۔ تو موسیٰ ؑ بولے: ”آپ نے ایک پاک جان کو قتل کر ڈالا ہے۔“
تشریح:
1: حضرت موسی ؑاپنی شریعت کے پابند تھے، بظاہر ایک برائی کو دیکھ کر اس کی مخالفت کرناان کا فرض تھا، مگر معاملہ درحقیقت اور تھا جس سے وہ آگاہ نہ تھے، حضرت خضر آگاہ تھے۔ 2: اللہ ہی کے پاس ہر غیب کا علم ہے اس کی مخلوق میں سے کسی کے پاس بھی غیب کا علم نہیں ہے، خواہ کوئی رسول اور نبی ہو یا صالح بزرگ اور ولی، سوائے اس کے جس پر اللہ نے اپنے انبیاء ورسل کو مطلع کردیا۔ قرآن مقدس کا یہ مقام اس بات کی مکمل صراحت کر رہا ہے کہ اللہ تعالی نے خضر ؑکو ایک بات کی خبر دے دی تو وہ ان کو معلوم ہو گئی اور حضرت موسی ؑجیسے جلیل القدر پیغمبر، نبوت ورسالت کے ساتھ ساتھ کلیم اللہ جیسے اونچے مقام کے حامل انسان کو اس کی خبر نہیں دی تو انہیں اس کا کچھ بھی علم نہ سکا۔
عربی لغت میں سنت طریق کو کہتے ہیں محدثین اور علمائے اصول کے نزدیک سنت سے مراد "رسول اللہ ﷺکے اقوال ،اعمال ،تقریرات اور جو کچھ آپ نے کرنے کا ارادہ فرمایا نیزوہ سب کچھ بھی شامل ہے جو آپ ؐ کی طرف سے (امت تک ) پہنچا "۔فتح الباری‘کتاب الاعتصام بالسنۃ
"كتاب السنةايك جامع باب ہے جس میں عقائد اوراعمال دونوں میں رسول ﷺکی پیروی کی اہمیت واضح کی گئی ہے ،رسول ﷺ اور خلفائے راشدین کے بعد واعمال میں جو بھی انحراف سامنے آیا تھا اس کی تفصیلات اور اس حوالے سےرسول ﷺکے اختیار کردی طریق کی وضاحت بیان کی گئی ہے اس کتاب کے موضوعات میں سنت اور اس پیروی ،دعوت الی السنۃ اور اس کا اجر ،امت کا اتفاق واتحاداور وہ فتنےجن سےیہ اتفاق انتشار میں بدلا شامل ہیں ، عقائد ونظریات میں جو انحراف آیااس کے اسباب کا بھی اچھی جائزہ لیا گیا اور منحرف نظریات کے معاملے میں صحیح عقائد کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ نظریاتی انحراف صحابہ کے درمیان تفصیل مسئلہ خلافت کے حوالے سے اختلاف ،حکمرانوں کی آمریت اور سرکشی سے پیدا ہوا اور آہستہ آہستہ ،فتنہ پردازوں نے ایمان ،تقدیر ،صفات باری تعالی ،حشر ونشر ،میزان،شفاعت ،جنت ،دوزخ حتی کہ قرآن کے حوالے سے لوگوں میں شکوک وشبہات پیداکرنے کی کوشش کی ۔
امام ابوداودؒ نے اپنی کتاب کے اس حصے میں ان تمام موضوعات کے حوالے سے صحیح عقائد اور رسول ﷺکی تعلیمات کو پیش کیا ۔ ان فتنوں کے استیصال کا کام محدثین ہی کا کارنامہ ہے ۔ محدثین کے علاوہ دوسر ے علما وقفہاء نے اس میدان میں اس انداز سے کام نہیں کیا بلکہ مختلف فقہی مکاتب فکر کے لوگ خصوصااپنی رائے اور عقل پر اعتماد کرنے والے حضرات خود ان کے فتنوں کا شکار ہو گئے
ابو داودکی "كتاب السنة "اور دیگر محدثین کے متعلقہ ابواب کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتاہے کہ جامعیت کے ساتھ محدثین نے ہر میدان میں کس طرح رہنمائی مہیاکی اور اہل یہود کے حملوں سے اسلام کا دفاع کیا ۔ انہوں نےمحض شرعی اور فقہی امور تک اپنی توجہ محدود نہیں رکھی بلکہ اسلام کے ہر پہلو اور دفاع عن الاسلام کے ہرمیدان میں کمر بستہ رہے ۔
تمہید باب
اللہ عزوجل کے اپنی مخلوق کے بارے میں تمام تر تفصیل اور جزوی ازلی علم کو "تقدیر "کہتے ہیں ۔ اس بنا پر کچھ لوگوں نے انسان کو مجبور محض سمجھا ہے اور تاریخ مذاہب میں جبریہ کہلاتے ہیں اور کچھ نے تقد یر کا انکارکرتے ہوئے انسان کو کلی مختار سمجھا ہے ،ایسے لوگوں کو قدریہ کہا جاتا ہے اور حقیقت اب دونوں کے بین بین ہے ۔ یعنی انسان مجبور محض ہے نہ مختار کل ،وہ اللہ کے علم اورفیصلوں سے باہر نہیں ۔ بندہ جو کچھ کرتا ہے اپنے اختیار سے کرتا ہے جو اللہ عزوجل کا دیا ہوا ہے ،اس سے نیکی صادرہو تو یہ اللہ کا فضل ہوتا ہے اس کاشکر ادا کیا جائے اور اس پر ثابت قدم رہا جائے اور اگر کوئی برائی ہو تو یہ بھی اللہ عزوجل کے ارادے اور مشیت کے بغیر نہیں ہوتی ،مگر یہ انسان کا اپنا فعل اور شیطان کا حملہ ہوتا ہے چاہیے کہ اس سے توبہ کی جائے اور باز رہا جائے ، یہ مسئلہ انتہائی اہم او ر نازک ہے ، اس کی تفصیلات کے لئے امام ابن ابی العزحنفی ؒ کی شرح عقیدہ طحاویہ اور امام ابن القیم ؒکی کتب کا تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہیے ۔
سیدنا ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سیدنا خضر ؑ نے لڑکے کو دیکھا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ تو انہوں نے اس کا سر پکڑ کر مروڑ دیا۔ تو موسیٰ ؑ بولے: ”آپ نے ایک پاک جان کو قتل کر ڈالا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1: حضرت موسی ؑاپنی شریعت کے پابند تھے، بظاہر ایک برائی کو دیکھ کر اس کی مخالفت کرناان کا فرض تھا، مگر معاملہ درحقیقت اور تھا جس سے وہ آگاہ نہ تھے، حضرت خضر آگاہ تھے۔ 2: اللہ ہی کے پاس ہر غیب کا علم ہے اس کی مخلوق میں سے کسی کے پاس بھی غیب کا علم نہیں ہے، خواہ کوئی رسول اور نبی ہو یا صالح بزرگ اور ولی، سوائے اس کے جس پر اللہ نے اپنے انبیاء ورسل کو مطلع کردیا۔ قرآن مقدس کا یہ مقام اس بات کی مکمل صراحت کر رہا ہے کہ اللہ تعالی نے خضر ؑکو ایک بات کی خبر دے دی تو وہ ان کو معلوم ہو گئی اور حضرت موسی ؑجیسے جلیل القدر پیغمبر، نبوت ورسالت کے ساتھ ساتھ کلیم اللہ جیسے اونچے مقام کے حامل انسان کو اس کی خبر نہیں دی تو انہیں اس کا کچھ بھی علم نہ سکا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابی بن کعب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خضر ؑ نے ایک لڑکے کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو اس کا سر پکڑا، اور اسے اکھاڑ لیا، تو موسیٰ ؑ نے کہا: کیا تم نے بےگناہ نفس کو مار ڈالا؟“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn ‘Abbas said : Ubayy b. Ka’b told me that the Messenger of Allah (May peace be upon him) said : Al-khidr saw a youth playing with boys. He took him by his head and uprooted it. Moses then said : Hast thou slain an innocent person who had slain none.