Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Regarding it being disliked to praise (people))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4806.
جناب مطرف ؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد (عبداللہ بن شخیر ؓ) نے کہا کہ میں بنو عامر کے وفد کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو ہم نے کہا: آپ ہمارے (سید) سردار ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سید (اور حقیقی سردار) اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔“ ہم نے کہا: آپ ﷺ ہمارے صاحب فضل و فضیلت اور صاحب جود و سخا ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم اس طرح کی بات کہہ سکتے ہو۔ مگر کہیں شیطان تمہیں اپنا وکیل نہ بنا لے (کہ کوئی ایسی بات کہہ گزرو جو میری شان کے مطابق نہ ہو)۔“
تشریح:
لفظ السید اپنے حقیقی معانی میں اللہ عزوجل کے لیئے ہی زیبا ہے، تاہم مجازی طور پر رسول اللہﷺ نے اپنے لیے استعمال فرمایا اور خبر دی ہے میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور مجھے اس پر کوئی ناز نہیں۔ (سنن ابنِ ماجة، الذھد، حدیث: 4308) اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہمارے سید ہیں اور انھوں نے ہمارے سید حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کیا۔ (صحیح البخاري، فضائل النبي ﷺ، حدیث:3754) معلوم ہوا کہ اصحابِ علم و فضل کے لیئے مجازََا یہ لفط استعمال ہو سکتا ہے۔ خیال رہے کہ درود شریف کے الفاظ میں سیدنا کا لفظ کسی صحیح روایت میں ثابت نہیں ہے۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
جناب مطرف ؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد (عبداللہ بن شخیر ؓ) نے کہا کہ میں بنو عامر کے وفد کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو ہم نے کہا: آپ ہمارے (سید) سردار ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سید (اور حقیقی سردار) اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔“ ہم نے کہا: آپ ﷺ ہمارے صاحب فضل و فضیلت اور صاحب جود و سخا ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم اس طرح کی بات کہہ سکتے ہو۔ مگر کہیں شیطان تمہیں اپنا وکیل نہ بنا لے (کہ کوئی ایسی بات کہہ گزرو جو میری شان کے مطابق نہ ہو)۔“
حدیث حاشیہ:
لفظ السید اپنے حقیقی معانی میں اللہ عزوجل کے لیئے ہی زیبا ہے، تاہم مجازی طور پر رسول اللہﷺ نے اپنے لیے استعمال فرمایا اور خبر دی ہے میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور مجھے اس پر کوئی ناز نہیں۔ (سنن ابنِ ماجة، الذھد، حدیث: 4308) اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہمارے سید ہیں اور انھوں نے ہمارے سید حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کیا۔ (صحیح البخاري، فضائل النبي ﷺ، حدیث:3754) معلوم ہوا کہ اصحابِ علم و فضل کے لیئے مجازََا یہ لفط استعمال ہو سکتا ہے۔ خیال رہے کہ درود شریف کے الفاظ میں سیدنا کا لفظ کسی صحیح روایت میں ثابت نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مطرف کے والد عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میں بنی عامر کے وفد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا، تو ہم نے عرض کیا: آپ ہمارے سید، آپ نے فرمایا: ”سید تو اللہ تعالیٰ ہے۱؎۔“ ہم نے عرض کیا: اور آپ ہم سب میں درجے میں افضل ہیں اور دوستوں کو نوازنے اور دشمنوں پر فائق ہونے میں سب سے عظیم ہیں، آپ نے فرمایا: ”جو کہتے ہو کہو، یا اس میں سے کچھ کہو، (البتہ) شیطان تمہیں میرے سلسلے میں جری نہ کر دے (کہ تم ایسے کلمات کہہ بیٹھو جو میرے لیے زیبا نہ ہو)۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ وہی اس لفظ کا حقیقی مستحق ہے، اور حقیقی معنیٰ میں سید اللہ ہی ہے، اور یہ مجازی اضافی سیادت جو افراد انسانی کے ساتھ مخصوص ہے منافی نہیں، حدیث میں ہے: «أنا سيد ولد آدم ولا فخر»
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah ibn ash-Shikhkhir: I went with a deputation of Banu Amir to the apostle of Allah (ﷺ) , and we said: You are our lord (sayyid). To this he replied: The lord is Allah, the Blessed and Exalted. Then we said: And the one of us most endowed with excellence and superiority. To this he replied: Say what you have to say, or part of what you have to say, and do not let the devil make you his agents.