Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Regarding sitting in the streets)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4815.
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”راستوں پر بیٹھنے سے احتراز کرو۔“ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں تو اس سے چارہ نہیں ہے، ہم نے آپس میں بات چیت کرنی ہوتی ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اس سے انکار کرتے ہو تو پھر راستے کے حق کا خیال رکھو۔“ انہوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! راستے کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نظر نیچی رکھنا، تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا، سلام کا جواب دینا، بھلی بات کہنا اور برائی سے روکنا۔“
تشریح:
راستوں اور چوکوں پر بلاوجہ معقول دھرنا مار کر بیٹھےرہنا شریفاء کا کام نہیں۔ ضرورت اور مجبوری کی کیفیت الگ چیز ہے۔ اس سے پردہ دار خواتین کو بالخصوص اذیت ہوتی ہے۔ اصحابِ مجلس اگر دین و تقوٰی سے موصوف نہ ہوں تو راہ گزرنے والوں پر بے جا تبصرے بھی ہوتے ہیں جو مسلمانوں کو کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا۔ اور اگر کوئی بطور مہمان آیا ہو تو اس کے ساتھ سرِراہ ہی مجلس لگا لینا اس کا اکرام نہیں ہے۔ بہر حال سرِ راہ بیٹھنے کی صورت میں مندرجہ بالا شرعی ہدایات کا پاس رکھنا لازم ہے۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”راستوں پر بیٹھنے سے احتراز کرو۔“ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں تو اس سے چارہ نہیں ہے، ہم نے آپس میں بات چیت کرنی ہوتی ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اس سے انکار کرتے ہو تو پھر راستے کے حق کا خیال رکھو۔“ انہوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! راستے کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نظر نیچی رکھنا، تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا، سلام کا جواب دینا، بھلی بات کہنا اور برائی سے روکنا۔“
حدیث حاشیہ:
راستوں اور چوکوں پر بلاوجہ معقول دھرنا مار کر بیٹھےرہنا شریفاء کا کام نہیں۔ ضرورت اور مجبوری کی کیفیت الگ چیز ہے۔ اس سے پردہ دار خواتین کو بالخصوص اذیت ہوتی ہے۔ اصحابِ مجلس اگر دین و تقوٰی سے موصوف نہ ہوں تو راہ گزرنے والوں پر بے جا تبصرے بھی ہوتے ہیں جو مسلمانوں کو کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا۔ اور اگر کوئی بطور مہمان آیا ہو تو اس کے ساتھ سرِراہ ہی مجلس لگا لینا اس کا اکرام نہیں ہے۔ بہر حال سرِ راہ بیٹھنے کی صورت میں مندرجہ بالا شرعی ہدایات کا پاس رکھنا لازم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں اپنی مجالس سے مفر نہیں ہم ان میں (ضروری امور پر) گفتگو کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”پھر اگر تم نہیں مانتے تو راستے کا حق ادا کرو۔“ لوگوں نے عرض کیا: راستے کا حق کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”نگاہ نیچی رکھنا، ایذاء نہ دینا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Sa`id al-Khudri reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying: Avoid sitting in the roads. The people said: Apostle of Allah! We must have meeting places in which to converse. The apostle of Allah (ﷺ) said: If you insist on meeting, give the road its due. They asked: What is the due of roads, Apostle of Allah? He replied: Lowering the eyes, removing anything offensive, returning salutation, commanding what is reputable and forbidding what is disreputable.