Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Opinion based arguing is disliked)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4836.
سیدنا سائب ؓ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو لوگ میری مدح اور میرے اعمال کا ذکر کرنے لگے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں اس کے متعلق تم سے زیادہ جانتا ہوں۔“ میں نے عرض کیا: آپ نے بجا فرمایا، میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ میرے شراکت دار تھے اور بہت ہی خوب شراکت دار تھے۔ آپ میں مخالفت کرنے یا لڑنے جھگڑنے والی کوئی بات نہیں تھی۔
تشریح:
نبی ﷺ کے انہی خصائلِ حمیدہ کی وجہ سے آپ ؐ کی نبوت سے پہلے کی زندگی کو بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: (فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ) بلا شبہ میں تم میں اس سے پہلے ایک عمر گزار چکا ہوں۔ کیا پس تم عقل نہیں کرتے ہوز (یونس: 16) اور اللہ عزوجل نے آپ کی حیاتِ مبارکہ کہ قسم کھائی ہے فرمایا: (لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ) تیری عمر کی قسم! وہ تو اپنی بد مستی میں سرگرداں تھے۔ (الحجر: 72) یہ رویت سندَا ضعیف ہے، لیکن معناََ صحیح ہے، جیسا کہ سیخ البانی ؒ نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدنا سائب ؓ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو لوگ میری مدح اور میرے اعمال کا ذکر کرنے لگے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں اس کے متعلق تم سے زیادہ جانتا ہوں۔“ میں نے عرض کیا: آپ نے بجا فرمایا، میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ میرے شراکت دار تھے اور بہت ہی خوب شراکت دار تھے۔ آپ میں مخالفت کرنے یا لڑنے جھگڑنے والی کوئی بات نہیں تھی۔
حدیث حاشیہ:
نبی ﷺ کے انہی خصائلِ حمیدہ کی وجہ سے آپ ؐ کی نبوت سے پہلے کی زندگی کو بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: (فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ) بلا شبہ میں تم میں اس سے پہلے ایک عمر گزار چکا ہوں۔ کیا پس تم عقل نہیں کرتے ہوز (یونس: 16) اور اللہ عزوجل نے آپ کی حیاتِ مبارکہ کہ قسم کھائی ہے فرمایا: (لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ) تیری عمر کی قسم! وہ تو اپنی بد مستی میں سرگرداں تھے۔ (الحجر: 72) یہ رویت سندَا ضعیف ہے، لیکن معناََ صحیح ہے، جیسا کہ سیخ البانی ؒ نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سائب ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، تو لوگ میری تعریف اور میرا ذکر کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں ان کو تم لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں۔“ میں نے عرض کیا: سچ کہا آپ نے میرے باپ ماں آپ پر قربان ہوں، آپ میرے شریک تھے، تو آپ ایک بہترین شریک تھے، نہ آپ لڑتے تھے اور نہ جھگڑتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated As-Sa'ib: I came to the Prophet (ﷺ) . The people began to praise me and make a mention of me. The Apostle of Allah (ﷺ) said: I know you, that is, he knew him. I said: My father and mother be sacrificed for you! you were my partner and how good a partner ; you neither disputed nor quarrelled.