Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Regarding how a man should sit)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4847.
سیدہ قیلہ بنت مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ «قرفصاء» کی صورت میں بیٹھے ہوئے تھے (کہ ان کے گھٹنے سینے سے ملے ہوئے اور ہاتھ ان کے گرد لپٹے ہوئے تھے) میں نے جب رسول اللہ ﷺ کو خشوع اور انکسار کی اس کیفیت میں دیکھا تو خوف سے لرز اٹھی۔
تشریح:
1) احتباء اور قرفصاء یہاں دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، یہ بیٹھنے کا ایک انداز ہے، جس کی وضاحت ترجمے میں موجود ہے، آدمی اس طرح سے کبھی مجلس میں بھی بیٹھ جاتا ہے۔ اس میں تواضع، انکسار اور خشوع کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر خطبہ جمعہ میں ا س طرح بیٹھنا ممنوع ہے۔ دیکھئے: (سنن أبي داود، الصلاة: حدیث: 1110) 2) حضرت قیلہ رضی اللہ عنہ کا لرزہ براندام ہونا اس تاثر کی وجہ سے تھا کہ جب رسول اللہ ﷺ جیسی عظیم ہستی کا ظاہری بیٹھنا اس قدر خشوع اور انکسار کا مظہر ہے تو باطنی طور پر آپ ﷺ کی کیا کیفیت ہو گی اور ہم عام لوگ کس قدر بے پرواہ ہیں۔ 3) اس حدیث سے یہ بھی اخذ کیا گیا کے کہ رسول اللہ ﷺ با وجود تواضع اور خشوع کے انتہا ئی بارعب اور ہیبت و دبدبہ والے تھے۔ اور یہ سب للہیت اور خشیت کا نتیجہ تھا۔ 4) ہر صاحبِ ایمان کو اپنی نشست و بر خاست میں تواضع کا انداز اختیار کرنا چاہیئے۔ اس سے وقار میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ اضافہ ہی ہوتا ہے۔ 5) مذکورہ دونوں روایات سندََا ضعیف ہیں، لیکن دیگر شواہد کی بنا پر حسن یا صحیح درجے تک پہنچ جاتی ہیں، جیسا کہ خود ہمارے فاضل محقق نے4846 نمبر حدیث کی تحقیق میں صحیح بخاری کا حوالہ ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ وہ یغني عنه یعنی بخاری کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔ علاوہ ازیں شیخ البانی ؒ نےپہلی روایت کو صحیح اور دوسری کو حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیئے دیکھئے: (الصحیحة، حديث: ٨٦٧، الترمذي، حديث: ٦٩٧٩)
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدہ قیلہ بنت مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ «قرفصاء» کی صورت میں بیٹھے ہوئے تھے (کہ ان کے گھٹنے سینے سے ملے ہوئے اور ہاتھ ان کے گرد لپٹے ہوئے تھے) میں نے جب رسول اللہ ﷺ کو خشوع اور انکسار کی اس کیفیت میں دیکھا تو خوف سے لرز اٹھی۔
حدیث حاشیہ:
1) احتباء اور قرفصاء یہاں دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، یہ بیٹھنے کا ایک انداز ہے، جس کی وضاحت ترجمے میں موجود ہے، آدمی اس طرح سے کبھی مجلس میں بھی بیٹھ جاتا ہے۔ اس میں تواضع، انکسار اور خشوع کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر خطبہ جمعہ میں ا س طرح بیٹھنا ممنوع ہے۔ دیکھئے: (سنن أبي داود، الصلاة: حدیث: 1110) 2) حضرت قیلہ رضی اللہ عنہ کا لرزہ براندام ہونا اس تاثر کی وجہ سے تھا کہ جب رسول اللہ ﷺ جیسی عظیم ہستی کا ظاہری بیٹھنا اس قدر خشوع اور انکسار کا مظہر ہے تو باطنی طور پر آپ ﷺ کی کیا کیفیت ہو گی اور ہم عام لوگ کس قدر بے پرواہ ہیں۔ 3) اس حدیث سے یہ بھی اخذ کیا گیا کے کہ رسول اللہ ﷺ با وجود تواضع اور خشوع کے انتہا ئی بارعب اور ہیبت و دبدبہ والے تھے۔ اور یہ سب للہیت اور خشیت کا نتیجہ تھا۔ 4) ہر صاحبِ ایمان کو اپنی نشست و بر خاست میں تواضع کا انداز اختیار کرنا چاہیئے۔ اس سے وقار میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ اضافہ ہی ہوتا ہے۔ 5) مذکورہ دونوں روایات سندََا ضعیف ہیں، لیکن دیگر شواہد کی بنا پر حسن یا صحیح درجے تک پہنچ جاتی ہیں، جیسا کہ خود ہمارے فاضل محقق نے4846 نمبر حدیث کی تحقیق میں صحیح بخاری کا حوالہ ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ وہ یغني عنه یعنی بخاری کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔ علاوہ ازیں شیخ البانی ؒ نےپہلی روایت کو صحیح اور دوسری کو حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیئے دیکھئے: (الصحیحة، حديث: ٨٦٧، الترمذي، حديث: ٦٩٧٩)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قیلہ بنت مخرمہ ؓ نے خبر دی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا، آپ دونوں ہاتھ سے احتباء کرنے والے کی طرح بیٹھے ہوئے تھے تو جب میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیٹھنے میں «مختشع» اور موسیٰ کی روایت میں ہے «متخشع»۱؎ دیکھا تو میں خوف سے لرز گئی۲؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: ان دونوں لفظوں میں سے پہلا باب افتعال، اور دوسرا باب تفعل سے ہے، دونوں کے معنیٰ عاجزی اور گریہ و زاری کرنے والا ہے۔ ۲؎: یہ نور الٰہی کا اجلال تھا کہ عاجزی کے باوجود رسول اللہ ﷺ کا رعب دل میں اتنا زیادہ سما گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qaylah daughter of Makhramah (RA) : She saw the Prophet (ﷺ) sitting with his arms round his legs. She said: When I saw the Apostle of Allah (ﷺ) in such humble condition in the sitting position (according to Musa's version), I trembled with fear.