Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Places In Which Prayer Is Not Allowed)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
489.
سیدنا ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”زمین میرے لیے پاک کرنے والی بنائی گئی ہے اور جائے سجدہ بھی۔“
تشریح:
یہ امت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ ہم بالعموم ہر جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ سوائے چند مخصوص مقامات کے جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔ جب کہ دیگر امتوں کے لئے پابندی تھی کہ اپنے مخصوص عبادت خانوں میں ہی نماز ادا کریں۔ 2۔پاک مٹی اور اس کی تمام اجناس سے تیمم جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرطهما. وهو عندهما وكذا أبي عوانة من حديث جابر بن عبد الله) .إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا جرير عن الأعمش عن مجاهد عن عُبَيْدِ بن عُمَيْرٍ عن أبي ذر.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وعبيد بن عمير: هو ابن قتادة الليثي. والحديث أخرجه أحمد (5/148) : ثنا عفان: ثنا أبو عوانة عن سليمان الأعمش... به مطولاً؛ ولفظه: أعطيت خمساً لم يُعْطَهُنَّ أحد قبلي: بُعِثْتُ إلى الأحمر والأسود، وجعِلَت لي الأرض طهوراً ومسجداً، وأحِفَتْ لي الغنائم ولم تَحِل لأحد قبلي، ونصِرْت بالرّعْبِ فَيرْعَب العدو وهو مني مسيرة شهر، وقيل لي: سلْ تعْطَه؛ واختبأتدعوتي شفاعة لأمتي؛ فهي نائلة منكم- إن شاء الله تعالى- مَنْ لم يشرك بالله شيئاً . وهذا على شرطهما أيضا. ورواه ابن إسحاق: حدثني سليمان الأ عمش... به؛ وزاد في آخره: فكان مجاهد يرى أن الأ حمر: الإنس، والأسود: الجن. رواه أحمد (5/145) ؛ وسنده حسن. وقد خالفه واصل الأحدب فقال: عن مجاهد عن أبي ذر... فأسقط من بينهما: عبيد بن عمير. أخرجه الطيالسي (رقم 472) : حدثنا شعبة عن واصل... به. وهكذا أخرجه أحمد (5/161) من طرق عن شعبة... به.
قلت: وواصل الأحدب ثقة ثبت، كما في التقريب ؛ فلعل مجاهداً سمعه عن عبيد أولاً، ثم سمعه من أبي ذر مباشرة؛ فإنه قد أدركه؛ فإن أبا ذر رضي الله عنه توفي سنة (32) في خلافة عثمان، وولد مجاهد سنة (18) - على قول يحيى ابن بكير-، وسنة (21) - على قول ابن حبان-؛ فعليه كان عمره (11) سنة على الأقل حين وفاة أبي ذر؛ فكان له ممكناً لقياه أو السماع منه. والله أعلم. والحديث له شواهد كثيرة؛ منها: عن جابر بن عبد الله: عند البخاري (1/346- 348) ، ومسلم (2/62) ، والنسائي (1/74 و 120) ، وأبي عوانة أيضا في صحيحه (1/395- 396) ، والدارمي (1/323) ، والبيهقى (2/433) ، وأحمد (4/303) ، وصححه ابن حبان (6364) .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”زمین میرے لیے پاک کرنے والی بنائی گئی ہے اور جائے سجدہ بھی۔“
حدیث حاشیہ:
یہ امت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ ہم بالعموم ہر جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ سوائے چند مخصوص مقامات کے جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔ جب کہ دیگر امتوں کے لئے پابندی تھی کہ اپنے مخصوص عبادت خانوں میں ہی نماز ادا کریں۔ 2۔پاک مٹی اور اس کی تمام اجناس سے تیمم جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے لیے ساری زمین ذریعہ طہارت اور مسجد بنائی گئی ہے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی ہر پاک زمین تیمم کرنے اور نماز پڑھنے کے لائق بنا دی گئی ہے، یہ صرف امت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ ہم بالعموم ہر جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں، سوائے چند مخصوص مقامات کے جن کا ذکر آگے احادیث میں آ رہا ہے۔ پہلی امتوں کو اس کے لئے بڑا اہتمام کرنا پڑتا تھا، وہ صرف عبادت خانوں ہی میں نماز پڑھ سکتی تھیں، دوسری جگہوں پر نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Dharr (RA): The earth has been made for me purifying and as a mosque (place for prayer).