Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Places In Which Prayer Is Not Allowed)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
490.
جناب ابوصالح غفاری بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی ؓ بابل سے گزر کر جا رہے تھے تو مؤذن ان کے پاس آیا اور انہیں نماز عصر کی اطلاع دی مگر جب وہ اس سے باہر نکل گئے تو انہوں نے مؤذن کو حکم دیا اور اس نے نماز کی اقامت کہی، جب فارغ ہوئے تو فرمانے لگے: میرے حبیب ؑ نے مجھے قبرستان اور سر زمین بابل میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ ملعون ہے۔
تشریح:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ امام خطابی فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ کسی بھی عالم نے ارض بابل میں نماز کو حرام کہا ہو جب کہ صحیح حدیث میں ہے۔ تمام روئے زمین میرے لئے مسجد اور مطہر بنادی گئی ہے۔ البتہ امام بخاری نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب قول تعلیقاً (بغیر سند کے) نقل کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارض بابل میں نماز پڑھنے کو ناپسند کیا ہے۔ (صحیح بخاري، الصلوة، باب: 53، باب الصلوة في مواضع الخسف والعذاب) اس باب میں یہ مرفوع حدیث امام بخاری نے نقل کی ہے۔ تم ان عذاب یافتہ لوگوں پرداخل نہ ہو الا یہ کہ روتے ہوئے اگر تم رونے والے نہ ہو تو پھر ان پر د اخل نہ ہو۔۔۔ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اس قسم کی جگہوں پر نماز پڑھنے سے گریز کرنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ لانقطاعه بين أبي صالح الغفاري- واسمه: سعيد ابن عبد الرحمن- وبين علي رضي الله تعالى عنه. وقال الخطابي: في إسناد هذا الحديث مقال . وقال الحافظ: في إسناده ضعف . وأشار إلى ذلك البيهقي) . إسناده: حدثنا سليمان بن داود: أنا ابن وهب قال: حدثني ابن لهيعة ويحيى بن أزْهر عن عمار بن سعد المُرادِي عن أبي صالح الغِفاري.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات، لكنه منقطع؛ فإن أبا صالح هذا- واسمه: سعيد بن عبد الرحمن- قال ابن يونس: روايته عن علي مرسلة، وما أظنه سمع منه . ولذلك قال الخطابي في المعالم : في إسناد هذا الحديث مقال . وضعفه الحافظ في الفتح (1/421) . والحديث أخرجه البيهقي (2/451) من طريق المصنف، ثم أشار إلى ضعفه بقوله: إن ثبت .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب ابوصالح غفاری بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی ؓ بابل سے گزر کر جا رہے تھے تو مؤذن ان کے پاس آیا اور انہیں نماز عصر کی اطلاع دی مگر جب وہ اس سے باہر نکل گئے تو انہوں نے مؤذن کو حکم دیا اور اس نے نماز کی اقامت کہی، جب فارغ ہوئے تو فرمانے لگے: میرے حبیب ؑ نے مجھے قبرستان اور سر زمین بابل میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ ملعون ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ امام خطابی فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ کسی بھی عالم نے ارض بابل میں نماز کو حرام کہا ہو جب کہ صحیح حدیث میں ہے۔ تمام روئے زمین میرے لئے مسجد اور مطہر بنادی گئی ہے۔ البتہ امام بخاری نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب قول تعلیقاً (بغیر سند کے) نقل کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارض بابل میں نماز پڑھنے کو ناپسند کیا ہے۔ (صحیح بخاري، الصلوة، باب: 53، باب الصلوة في مواضع الخسف والعذاب) اس باب میں یہ مرفوع حدیث امام بخاری نے نقل کی ہے۔ تم ان عذاب یافتہ لوگوں پرداخل نہ ہو الا یہ کہ روتے ہوئے اگر تم رونے والے نہ ہو تو پھر ان پر د اخل نہ ہو۔۔۔ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اس قسم کی جگہوں پر نماز پڑھنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوصالح غفاری کہتے ہیں کہ علی ؓ بابل سے گزر رہے تھے کہ ان کے پاس مؤذن انہیں نماز عصر کی خبر دینے آیا، تو جب آپ بابل کی سر زمین پار کر گئے تو مؤذن کو حکم دیا اس نے عصر کے لیے تکبیر کہی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: میرے حبیب ﷺ نے مجھے قبرستان میں اور سر زمین بابل میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۱؎ کیونکہ اس پر لعنت کی گئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یہ روایت اس باب کی صحیح روایت کے معارض ہے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ بفرض صحت اس سے مقصود یہ ہے کہ بابل میں سکونت اختیار نہ کی جائے یا یہ ممانعت خاص علی رضی اللہ عنہ کے لئے تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم تھا کہ یہاں کے لوگوں سے انہیں ضرر پہنچے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali ibn Abu Talib (RA): Abu Salih al-Ghifari reported: 'Ali (once) passed by Babylon during his travels. The mu'adhdhin (the person who calls for prayer) came to him to call for the afternoon prayer. When he passed by that place, he commanded to announce for the prayer. After finishing the prayer he said: My affectionate friend (i.e. the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم) prohibited me to say prayer in the graveyard. He also forbade me to offer prayer in Babylon because it is accursed.