Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Regarding the prohibition of wronging others)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4902.
سیدنا ابوبکرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا دنیا میں بھی جلدی دے دے اور اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اس کی سزا جمع رکھے جیسے کہ ظلم و زیادتی اور قطع رحمی ہے۔“
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ بغی و عدوان (ظلم و ذیادتی) اور قطع رحمی یہ دو جرم ایسے ہیں کہ اللہ تعالی اخروی سزا کے علاوہ دنیا میں بھی عام طور پر جلد ہی ان کی سزا دے دیتا ہے۔ اس لیے قطع رحمی سے بچنا چاہیے اور ظلم و عدوان سے بھی۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدنا ابوبکرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا دنیا میں بھی جلدی دے دے اور اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اس کی سزا جمع رکھے جیسے کہ ظلم و زیادتی اور قطع رحمی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ بغی و عدوان (ظلم و ذیادتی) اور قطع رحمی یہ دو جرم ایسے ہیں کہ اللہ تعالی اخروی سزا کے علاوہ دنیا میں بھی عام طور پر جلد ہی ان کی سزا دے دیتا ہے۔ اس لیے قطع رحمی سے بچنا چاہیے اور ظلم و عدوان سے بھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ظلم و بغاوت اور قطع رحمی (رشتہ ناتا توڑنے) جیسا کوئی اور گناہ نہیں ہے، جو اس لائق ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے مرتکب کو اسی دنیا میں سزا دے باوجود اس کے کہ اس کی سزا اس نے آخرت میں رکھ چھوڑی ہو۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «بغی» سے مراد باغی کا ظلم یا سلطان کے خلاف بغاوت یا کبر و غرور ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated AbuBakrah (RA) : The Prophet (ﷺ) said: There is no sin more fitted to have punishment meted out by Allah to its perpetrator in advance in this world along with what He stores up for him in the next world than oppression and severing ties of relationship.