Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Reconciliation)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4921.
سیدہ ام کلثو بنت عقبہ ؓ سے روایت ہے کہتی ہیں: میں نے نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے جھوٹ کی کہیں اجازت دی ہو مگر تین مواقع پر۔ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: ”میں ایسے آدمی کو جھوٹا شمار نہیں کرتا جو لوگوں میں صلح کرانے کی غرض سے کوئی بات بناتا ہو اور اس کا مقصد سوائے صلح اور اصلاح کے کچھ نہ ہو، اور جو شخص لڑائی میں کوئی بات بنائے اور شوہر جو اپنی بیوی سے یا بیوی اپنے شوہر کے سامنے کوئی بات بنائے۔“
تشریح:
1۔ مسلمان بھائیوں میں صلح اور اصلاح کے لیئے کوئی بات بنانی پڑ جائے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ جھوٹ معیوب نہیں ہوتا۔ 2۔ میاں بیوی اگر کسی ناراضی کو دور کرنے کے لیئے یا لفظی طور پر ایک دوسرے کو محبت جتلانے کے لیئے کوئی بات کہیں تو جائز ہے تاکہ انکی عائلی زندگی مسرت بھری رہے۔ 3۔ دشمن کو دھوکہ دینا بھی جائز ہے۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدہ ام کلثو بنت عقبہ ؓ سے روایت ہے کہتی ہیں: میں نے نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے جھوٹ کی کہیں اجازت دی ہو مگر تین مواقع پر۔ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: ”میں ایسے آدمی کو جھوٹا شمار نہیں کرتا جو لوگوں میں صلح کرانے کی غرض سے کوئی بات بناتا ہو اور اس کا مقصد سوائے صلح اور اصلاح کے کچھ نہ ہو، اور جو شخص لڑائی میں کوئی بات بنائے اور شوہر جو اپنی بیوی سے یا بیوی اپنے شوہر کے سامنے کوئی بات بنائے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ مسلمان بھائیوں میں صلح اور اصلاح کے لیئے کوئی بات بنانی پڑ جائے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ جھوٹ معیوب نہیں ہوتا۔ 2۔ میاں بیوی اگر کسی ناراضی کو دور کرنے کے لیئے یا لفظی طور پر ایک دوسرے کو محبت جتلانے کے لیئے کوئی بات کہیں تو جائز ہے تاکہ انکی عائلی زندگی مسرت بھری رہے۔ 3۔ دشمن کو دھوکہ دینا بھی جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام کلثوم بنت عقبہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کسی بات میں جھوٹ بولنے کی اجازت دیتے نہیں سنا، سوائے تین باتوں کے، رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے: میں اسے جھوٹا شمار نہیں کرتا، ایک یہ کہ کوئی لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور کوئی بات بنا کر کہے، اور اس کا مقصد اس سے صرف صلح کرانی ہو، دوسرے یہ کہ ایک شخص جنگ میں کوئی بات بنا کر کہے، تیسرے یہ کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کوئی بات بنا کر کہے اور بیوی اپنے شوہر سے کوئی بات بنا کر کہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Umm Kulthum, daughter of ‘Uqbah, said: I did not hear the Messenger of Allah (ﷺ) making a concession for anything people say falsely except in three matters. The Messenger of Allah (ﷺ) would say: I do not count as a liar a man who puts things right between people, saying a word by which he intends only putting things right, and a man who says something in war, and a man who says something to his wife, or a wife who says something to her husband.