Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: When A Boy Should Be Ordered To Offer As-Salat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
494.
عبدالملک بن ربیع بن سبرہ عن ابیہ عن جدہ (سیدنا سبرہ بن معبد جہنی ؓ) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بچہ جب سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز کا حکم دو اور جب دس سال کا ہو جائے (اور نہ پڑھے) تو اسے مارو۔“
تشریح:
اس حکم کا تعلق بچے اور بچی دونوں سے ہے۔ اور مقصد یہ ہے کہ شعور کی عمر کو پہنچتے ہی شریعت کے اوامر ونواہی اوردیگر آداب کی تلقین ومشق کا عمل شروع ہو جانا چاہیے۔ تاکہ بلوغت کو پہنچتے پہنچتے اس کے خوب عادی ہوجایئں۔ 2۔اسلام میں جسمانی سزا کا تصور موجود ہے۔ مگر بے تکا نہیں ہے۔ پہلے تین سال تک تو ایک طرح سے والدین کا امتحان ہے کہ زبانی تلقین سے کام لیں اور خود عملی نمونہ پیش کریں۔ اس کے بعد سزا بھی دیں مگر ایسی جو زخمی نہ کرے۔ اور چہرے پر بھی نہ مارا جائے۔ کیونکہ چہرے پر مارنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، حدیث نمبر: 4493)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح. وقال الحاكم: صحيح على شرط مسلم ، ورافقه الذهبي، وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ، وقال النووي: حديث صحيح . ورواه ابن خزيمة؛ يعني: في صحيحه ) . إسناده: حدثنا محمد بن عيسى- يعني: ابن الطباع-: ثنا إبراهيم بن سعد عن عبد الملك بن الربيع بن سَبْرَةَ عن أبيه عن جده.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات؛ غير عبد الملك بن الربيع بن سبرة؛ وقد أخرج له مسلم في صحيحه (4/132-133) حديثاً في نسخ متعة النكاح بهذا السند، لكنه عنده متابعة؛ فإنه أخرجه- بعد أن ساقه- من طريق الليث وعُمَارة بن غَزِيَّة وعبد العزيز بن عمر كلهم عن الربيع بن سبرة... به؛ وقد وتقه العجلي، وروى عنه جماعة من الثقات، وقد صحح له من يأتي ذكره؛ فهو كما قال الذهبي: صدوق إن شاء الله. ضعفه يحيى بن معين فقط، فقال ابن أبي خيثمة: سئل ابن معين عن أحاديثه عن أبيه عن جده؟ فقال: ضعاف . وقال أبو الحسن ابن القطان: لم تثبت عدالته، وإن كان مسلم أخرج له؛ فغير محتج به . قال الحافظ في تهذيب التهذيب : ومسلم إنما أخرج له حديثاً واحداً- في المتعة- متابعة، وقد نبه على ذلك المؤلف ؛ يعني: المزي. والحديث أخرجه الترمذي (2/259) ، والدارمي (1/333) ، وابن خزيمة في صحيحه (1002) ، والطحاوي في المشكل (3/231) والدارقطني (ص 85) ، والحاكم (1002) ، والبيهقي (2/14 و 3/83- 84) ، وأحمد (3/404) من طرق عن عبد الملك... به. وقد صححه من ذكرنا آنفاً، وكلام النووي في المجموع (3/10) - وتمام كلام الحاكم-: فقد احتج- يعني: مسلماً- بعبد الملك بن الربيع بن سَبْغ عن أبائه ! كذا قال، وأقره الذهبي! وقد علمت أنه إنما روى له متابعة. ويقويه ما بعده، وحديث أبي هريرة مرفوعاً نحوه. أخرجه البزار (ص 41- زوائده) بسند حسن في الشواهد
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
عبدالملک بن ربیع بن سبرہ عن ابیہ عن جدہ (سیدنا سبرہ بن معبد جہنی ؓ) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بچہ جب سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز کا حکم دو اور جب دس سال کا ہو جائے (اور نہ پڑھے) تو اسے مارو۔“
حدیث حاشیہ:
اس حکم کا تعلق بچے اور بچی دونوں سے ہے۔ اور مقصد یہ ہے کہ شعور کی عمر کو پہنچتے ہی شریعت کے اوامر ونواہی اوردیگر آداب کی تلقین ومشق کا عمل شروع ہو جانا چاہیے۔ تاکہ بلوغت کو پہنچتے پہنچتے اس کے خوب عادی ہوجایئں۔ 2۔اسلام میں جسمانی سزا کا تصور موجود ہے۔ مگر بے تکا نہیں ہے۔ پہلے تین سال تک تو ایک طرح سے والدین کا امتحان ہے کہ زبانی تلقین سے کام لیں اور خود عملی نمونہ پیش کریں۔ اس کے بعد سزا بھی دیں مگر ایسی جو زخمی نہ کرے۔ اور چہرے پر بھی نہ مارا جائے۔ کیونکہ چہرے پر مارنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، حدیث نمبر: 4493)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سبرہ بن معبد جہنی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب دس سال کے ہو جائیں تو اس (کے ترک) پر انہیں مارو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated As-Saburah (RA): The Prophet (ﷺ) said: Command a boy to pray when he reaches the age of seven years. When he becomes ten years old, then beat him for prayer.