Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: When A Boy Should Be Ordered To Offer As-Salat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
495.
جناب عمرو بن شعیب اپنے والد (شعیب) سے اور وہ (شعیب) اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں (اور نہ پڑھیں) تو انہیں اس پر مارو اور ان کے بسر جدا جدا کر دو۔“
تشریح:
اس حدیث سے کئی اہم مسائل معلوم ہوتے ہیں۔ مثلا یہ کہ جب بچے دس سال کی عمر کو پہنچ جایئں تو ان کے بستر الگ الگ کردیئے جایئں۔ چاہے وہ حقیقی بھائی ہوں یا بہنیں۔ یا بھائی بہن ملے جلے۔ اس حکم شریعت کی حکمت۔۔۔واللہ أعلم۔۔ یہ ہوسکتی ہے کہ شعور کی ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو ایسی مجلس ومحفل سے دور کر دیا جائے۔ جس سے ان کے خیالات اور عادات واطوار کے بگڑنے اور پراگندہ ہونے کا خطرہ ہو۔ گویا کہ یہ نبوی حکم منکرات کے اثر سے بچنے اور اولاد کو بچانے کا بہترین زریعہ ہے۔ نیز اس حدیث سے نماز کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔نماز کے سوا کوئی دوسرا ایسا شرعی عمل نہیں ہے کہ جس کے بارے میں یہ حکم ہو کہ سات سال کی عمر کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اس کے کرنے کی تاکید کی جائے۔ اور دس سال کی عمر کو پہنچ کرنہ کرنے کی صورت میں مارا پیٹا جائے۔ نما ز نہ پڑھنے والے شخص کے بارے میں متقدمین اسلاف اہل علم کے اقوال درج زیل ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی کہتے ہیں کہ (یقتل تار الصلوة) یعنی تارک صلواۃ کو قتل کردیا جائے۔ مکحول حماد بن یزیز اور وکیع بن جراح کہتے ہیں۔ اس سے توبہ کرائی جائے اگر وہ توبہ کرلے درست ورنہ قتل کردیا جائے۔ امام زہری کہتے ہیں وہ فاسق ہے اس کو سخت سزا دے کر جیل میں ڈال دیا جائے۔ ابراہیم نخعی۔ ایوب سختیانی۔ عبد اللہ بن مبارک۔ امام احمد بن حنبل۔ اسحاق بن راہویہ۔ اور علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے جو شخص شرعی عذر کے بغیر نماز نہیں پڑھتا۔ حتیٰ کہ نماز کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ تو ایسا شخص کافر ہے۔ (عون المعبود: 115/2، طبع جدید)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح. وقال النووي: إسناده حسن ) . إسناده: حدثنا مُؤَمل بن هشام اليَشْكُرِيُ: ثنا إسماعيل عن سَوارٍ أبي حمزة - قال أبو داود: هو سَوار بن داود أبو حمزة المزَنِيُ الصيْرفِي- عن عمرو بن شعيب.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات- على الخلاف الشهور في عمرو بن شعيب، وقد سبق تحقيق الحق فيه، وأنه حسن الإسناد-؛ غير سوار بن داود أبي حمزة المزني الصيرفي، وهو حسن الحديث إن شاء الله تعالى. وإليك ترجمته من تهذيب التهذيب : قال أبو طالب عن أحمد: شيخ بصري لا بأس به، روى عنه وكيع فقلب اسمه، وهو شيخ يوثق بالبصرة، لم يرْوَ عنه غير هذا الحديث .
قلت: يعني هذا: وقال ابن معين: ثقة . وقال الدارقطني: لا يتابع على أحاديثه، فيعتبر به . وذكره ابن حبان في الثقات ، وقال: يخطئ . ولخَّص ذلك الحافظ في التقريب ، فقال: صدوق له أوهام . وهذا معناه أنه حسن الحديث على أقل تقدير؛ إذا لم يظهر وهمه فيه. ولذلك قال النووي في المجموع (3/10) ، وفي الرياض (ص 148) : رواه أبو داود بإسناد حسن . وإسماعيل: هو ابن عُلَيَّةَ. والحديث أخرجه أحمد (2/187) : ثنا محمد بن عبد الرحمن الطُفَاوي وعبد الله بن بكر السهْمِيُ- المعنى واحد- قالا: ثنا سوار أبو حمزة... به؛ وفيه الزيادة الأتية في الكتاب في الرواية الأخرى؛ بلفظ: إذا أنكح أحدكم عبده أو أجيره؛ فلا ينظرن إلى شيء من عورته؛ فإن ما أسفل من سُرته إلى ركبتيه من عورته . وأخرجه من طريق عبد الله بن بكر السَّهْمِي: الدارقطني (ص 85) ، وعنه البيهقي (2/228- 229) ، والحاكم (11/97) ، والخطيب في تاريخه (2/278) ؛ وليس عند الحاكم الزيادة. وأخرجه الدارقطني، وعنه البيهقي (2/229) من طريق النضْرِ بن شُمَيْل: أنا أبو حمزة الصيرفي- وهو سوار بن داود-... به، ولفظها عنده: وإذا زوج أحدُكم عبدَه آمَتَةُ أو أجيره؛ فلا تنظرِ الأمَةُ بلى شيء من عورته؛ فإن ما تحت السرة إلى الركبة من العورة . والحديث أخرجه البيهقي (2/226) من طريق المؤلف. وقد رواه وكيع أيضا عن سَوَّارٍ ؛ لكنه قلب اسمه كما سبق؛ وقد أخرجه المصنف وهو:
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب عمرو بن شعیب اپنے والد (شعیب) سے اور وہ (شعیب) اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں (اور نہ پڑھیں) تو انہیں اس پر مارو اور ان کے بسر جدا جدا کر دو۔“
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے کئی اہم مسائل معلوم ہوتے ہیں۔ مثلا یہ کہ جب بچے دس سال کی عمر کو پہنچ جایئں تو ان کے بستر الگ الگ کردیئے جایئں۔ چاہے وہ حقیقی بھائی ہوں یا بہنیں۔ یا بھائی بہن ملے جلے۔ اس حکم شریعت کی حکمت۔۔۔واللہ أعلم۔۔ یہ ہوسکتی ہے کہ شعور کی ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو ایسی مجلس ومحفل سے دور کر دیا جائے۔ جس سے ان کے خیالات اور عادات واطوار کے بگڑنے اور پراگندہ ہونے کا خطرہ ہو۔ گویا کہ یہ نبوی حکم منکرات کے اثر سے بچنے اور اولاد کو بچانے کا بہترین زریعہ ہے۔ نیز اس حدیث سے نماز کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔نماز کے سوا کوئی دوسرا ایسا شرعی عمل نہیں ہے کہ جس کے بارے میں یہ حکم ہو کہ سات سال کی عمر کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اس کے کرنے کی تاکید کی جائے۔ اور دس سال کی عمر کو پہنچ کرنہ کرنے کی صورت میں مارا پیٹا جائے۔ نما ز نہ پڑھنے والے شخص کے بارے میں متقدمین اسلاف اہل علم کے اقوال درج زیل ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی کہتے ہیں کہ (یقتل تار الصلوة) یعنی تارک صلواۃ کو قتل کردیا جائے۔ مکحول حماد بن یزیز اور وکیع بن جراح کہتے ہیں۔ اس سے توبہ کرائی جائے اگر وہ توبہ کرلے درست ورنہ قتل کردیا جائے۔ امام زہری کہتے ہیں وہ فاسق ہے اس کو سخت سزا دے کر جیل میں ڈال دیا جائے۔ ابراہیم نخعی۔ ایوب سختیانی۔ عبد اللہ بن مبارک۔ امام احمد بن حنبل۔ اسحاق بن راہویہ۔ اور علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے جو شخص شرعی عذر کے بغیر نماز نہیں پڑھتا۔ حتیٰ کہ نماز کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ تو ایسا شخص کافر ہے۔ (عون المعبود: 115/2، طبع جدید)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو۔“
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے کئی اہم مسائل معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ جب بچے دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے بستر الگ الگ کر دئیے جائیں۔ چاہے وہ حقیقی بھائی ہوں یا بہنیں یا بھائی بہن ملے جلے۔ اس حکم کا تعلق بچے اور بچی دونوں سے ہے اور مقصد یہ ہے کہ شعور کی عمر کو پہنچتے ہی شریعت کے اوامر ونواہی اور دیگر آداب کی تلقین و مشق کا عمل شروع ہو جانا چاہیے تاکہ بلوغت کو پہنچتے پہنچتے اس کے خوب عادی ہو جائیں۔ اسلام میں جسمانی سزا کا تصور موجود ہے مگر بے تکا نہیں ہے۔ پہلے تین سال تک تو ایک طرح سے والدین کا امتحان ہے کہ زبانی تلقین سے کام لیں اور خود عملی نمونہ پیش کریں۔ اس کے بعد سزا بھی دیں مگر ایسی جو زخمی نہ کرے اور چہرے پر بھی نہ مارا جائے۔ کیونکہ چہرے پر مارنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Amr ibn al-'As (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) said: Command your children to pray when they become seven years old, and beat them for it (prayer) when they become ten years old; and arrange their beds (to sleep) separately.