Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Giving a man a kunyah when he does not have a son)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4969.
سیدنا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لایا کرتے تھے اور میرے چھوٹے بھائی نے جس کی کنیت ”ابوعمیر“ تھی، اس نے ایک چڑیا رکھی ہوئی تھی جس سے وہ کھیلا کرتا تھا۔ (اس چڑیا کو عربی میں «نغير» کہتے تھے) تو وہ مر گئی۔ ایک دن نبی کریم ﷺ اس کے پاس گئے اور اسے غمگین پایا تو پوچھا: ”اسے کیا ہوا ہے؟“ ہم نے بتایا کہ اس کی چڑیا «نغير» مر گئی ہے۔ تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”اے ابوعمیر! کیا کر گیا (تیرا) «نغير»؟“
تشریح:
محدثین نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ مسبحع مقفی کلام جائز ہے اور جائز حدود میں منسی مزاح کی بات میں کو ئی حرج نہیں۔ اور بچوں کے ساتھ ملاطفت حسن اخلاق کا حصہ ہے۔ چھوٹی عمر میں کنیت رکھنا جائز ہے اور جانور پال لینا اس کو پنجرے میں رکھنا اور ان سے کھیلنا بھی مباح ہے۔ (امام خطابی رحمۃاللہ علیہ)
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدنا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لایا کرتے تھے اور میرے چھوٹے بھائی نے جس کی کنیت ”ابوعمیر“ تھی، اس نے ایک چڑیا رکھی ہوئی تھی جس سے وہ کھیلا کرتا تھا۔ (اس چڑیا کو عربی میں «نغير» کہتے تھے) تو وہ مر گئی۔ ایک دن نبی کریم ﷺ اس کے پاس گئے اور اسے غمگین پایا تو پوچھا: ”اسے کیا ہوا ہے؟“ ہم نے بتایا کہ اس کی چڑیا «نغير» مر گئی ہے۔ تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”اے ابوعمیر! کیا کر گیا (تیرا) «نغير»؟“
حدیث حاشیہ:
محدثین نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ مسبحع مقفی کلام جائز ہے اور جائز حدود میں منسی مزاح کی بات میں کو ئی حرج نہیں۔ اور بچوں کے ساتھ ملاطفت حسن اخلاق کا حصہ ہے۔ چھوٹی عمر میں کنیت رکھنا جائز ہے اور جانور پال لینا اس کو پنجرے میں رکھنا اور ان سے کھیلنا بھی مباح ہے۔ (امام خطابی رحمۃاللہ علیہ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں آتے تھے، اور میرا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کی کنیت ابوعمیر تھی، اس کے پاس ایک چڑیا تھی، وہ اس سے کھیلتا تھا، وہ مر گئی، پھر ایک دن اچانک نبی اکرم ﷺ اس کے پاس آئے تو اسے رنجیدہ و غمگین دیکھ کر فرمایا: ”کیا بات ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: اس کی چڑیا مر گئی، تو آپ نے فرمایا: ”اے ابوعمیر! کیا ہوا نغیر (چڑیا) کو؟“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas b. Malik said (RA): The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) used to come to visit us. I had a younger brother who was called Abu ‘Umair by Kunyah (surname). He had a sparrow with which he played, but it died. So one day the prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) came to see him and saw him grieved. He asked: What is the matter with him? The people replied: His sparrow has died. He then said: Abu ‘Umair! What has happened to the little sparrow?