Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: When A Boy Should Be Ordered To Offer As-Salat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
497.
معاذ بن عبداللہ بن خبیب جہنی سے مروی ہے (ہشام بن سعد نے کہا کہ) ہم معاذ بن عبداللہ کے ہاں گئے تو انہوں نے اپنی اہلیہ سے پوچھا کہ بچہ کب نماز پڑھے؟ تو اس نے بتایا کہ ہمارے ہاں ایک صاحب تھے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب وہ دائیں بائیں کا فرق سمجھنے لگے تو اسے نماز کا حکم دو۔“
تشریح:
سات سال کی عمر میں بچے کے شعور میں مناسب پختگی آجاتی ہے۔ نماز کے معاملے میں اس پر اس سے پہلے ہی محنت شروع کر دینی چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ قال ابن القطان: لا تعرف هذه المرأة، ولا الرجل الذي روت عنه . والصحيح في الباب قوله عليه السلام: مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين... الحديث، وهو في الكتاب الآخر (رقم 508 -510) ) . إسناده: حدثنا سليمان بن داود المهْرِيُّ: ثنا ابن وهب: أخبرني هشام بن سعد...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات؛ غير المرأة والرجل الذي روت عنه. وقد قال ابن القطان: لا تُعْرفُ هذه المرأة، ولا الرجل - كما في التلخيص (3/97) -. والحديث أخرجه البيهقي (3/84) . وقد تابعه عبد الله بن نافع الصائغ عن هشام بن سعد؛ لكن خالفه في إسناده: أخرجه الطبراني في المعجم الصغير (ص 54) قال: ثنا إسحاق بن خلف المرْوزِي- ببغداد-: ثنا محمد بن إسحاق المُسيِّبِي: ثنا عبد الله بن نافع الصائغ عن هشام بن سعد عن معاذ بن عبد الله بن خُبيْب الجُهنِيِّ عن أبيه أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال... فذكره. وقال: لا يروى عن عبد الله بن خبيب- وله صحبة- إلا بهذا الإسناد. تفرد به عبد الله بن نافع .
قلت: وهو ضعيف من قبل حفظه، وقد خالفه ابن وهب الثقة الحجة، فلا يحتج به مع هذه المخالفة. ومنه تعلم أن قول ابن صاعد: إسناد حسن غريب ! ليس بحسن. ومثله قول الهيثمي (1/294) : رواه الطبراني في الأوسط و الصغير .. ورجاله ثقات ! فهذا التوثيق- بإطلاقه- وهم منه؛ فإن الصائغ هذا مختلف فيه، وقد قال أبو حاتم فيه: هو لين في حفظه .
قلت: ويؤيد هذا مخالفته لعبد الله بن وهب في إسناده كما سبق. ثم إن متن الحديث مخالف لحديث: مرُوا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع ؛ لأن التمييز المذكور في حديث الباب يكون قبل السبع بسنين كما هو مشاهد. ثم إن الحديث قد رواه يعقوب بن حميْد: نا عبد الله بن نافع... به؛ إلا أنه قال: عن أبيه عن عمه...، فزاد: عن عمه! أخرجه ابن أبي عاصم في الآحاد (28/5/2565) . وهذه الزيادة لعلها من أوهام يعقوب بن حميد؛ فإنه صدوق ربما وهم، كما قال الحافظ. والله أعلم.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
معاذ بن عبداللہ بن خبیب جہنی سے مروی ہے (ہشام بن سعد نے کہا کہ) ہم معاذ بن عبداللہ کے ہاں گئے تو انہوں نے اپنی اہلیہ سے پوچھا کہ بچہ کب نماز پڑھے؟ تو اس نے بتایا کہ ہمارے ہاں ایک صاحب تھے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب وہ دائیں بائیں کا فرق سمجھنے لگے تو اسے نماز کا حکم دو۔“
حدیث حاشیہ:
سات سال کی عمر میں بچے کے شعور میں مناسب پختگی آجاتی ہے۔ نماز کے معاملے میں اس پر اس سے پہلے ہی محنت شروع کر دینی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہشام بن سعد کا بیان ہے کہ مجھ سے معاذ بن عبداللہ بن خبیب جہنی نے بیان کیا، ہشام کہتے ہیں: ہم معاذ کے پاس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی سے پوچھا: بچے کب نماز پڑھنا شروع کریں؟ تو انہوں نے کہا: ہم میں سے ایک شخص رسول اللہ ﷺ سے نقل کر رہا تھا کہ اس کے متعلق آپ ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”جب بچہ اپنے داہنے اور بائیں ہاتھ میں تمیز کرنے لگے تو تم اسے نماز کا حکم دو۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mu'adh ibn 'Abdullah ibn Khubayb al-Juhani (RA): Hisham ibn Sa'd reported: We entered upon Mu'adh ibn Abdullah ibn Khubayb al-Juhani. He said to his wife: When (at what age) should a boy pray? She replied: Some person of us reported: The Apostle of Allah (ﷺ) was asked about it; he said: When a boy distinguishes right hand from the left hand, then command him to pray.