باب: یہ مسئلہ کہ ایک شخص اذان کہے اور دوسرا اقامت ( تکبیر کہے )
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: One Person Calling The Adhan And Another Calling The Iqamah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
512.
جناب محمد بن عبداللہ اپنے چچا سیدنا عبداللہ بن زید ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے (شروع میں) اذان کے متعلق کچھ چیزوں کا ارادہ فرمایا مگر ان پر عمل نہ کیا۔ چنانچہ عبداللہ بن زید ؓ کو خواب میں اذان دکھلائی گئی تو وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ کو خبر دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ کلمات بلال کو بتاؤ۔“ چنانچہ انہوں نے بتائے اور بلال ؓ نے اذان کہی۔ عبداللہ نے کہا: میں نے یہ خواب دیکھا اور میں اس کا خواہشمند تھا فرمایا: ”تم اقامت کہہ لو۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: هذا سند ضعيف،؛ محمد بن عبد الله لا يُعْرفُ إلا في هذه الرواية. ومحمد بن عمرو: هو الأنصاري الواقِفِيُ، وهو ضعيف اتفاقاً، وقد اضطرب في إسناده، ففي هذه الرواية قال: عن محمد بن عبد الله عن عمه عبد الله بن زيد... وفي الرواية الآتية يقول: سمعت عبد الله بن محمد قال: كان جدي عبد الله بن زيد... وقال المنذري: ذكر البيهقي أن في إسناده ومتنه اختلافاً . وقال الحافظ: فيه ضعف ) . إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا حماد بن خالد.
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ للأسباب المذكورة أعلاه، وهما ثلاثة: الضعف، والجهالة، والاضطراب. أما الأول: فهو من قِبل محمد بن عمرو هذا. وفي الرواة اثنان، كل منهما اسمه محمد بن عمرو الأنصاري؛ أحدهما: مدني، والآخر: بصري، يكنى أبا سهل الواقفي. وقد اختلف في راوي هذا الحديث: فذهب المزي إلى أنه الأول؛ حيث ذكر أنه روى حديث الأذان عن عبد الله بن محمد عن عبد الله بن زيد، وأنه من رجال أبي داود. وتبعه على ذلك الذهبي؛ حيث قال بعد أن ترجم للواقفي: فأما محمد بن عمرو (د) الأنصاري؛ فآخر لا يكاد يُعْرفُ، له حديث الأذان عن شيخ، رواه عنه حماد بن خالد وعبد الرحمن بن مهدي؛ فحكمه العدالة . قال الحافظ: يعني: لرواية ابن مهدي عنه . وكأن عمدتهما فيما ذهبا إليه: ما حكاه الدارقطني عن المصنف- بعد أن روى الحديث من طريقه-، فقال: وقال أبو داود: محمد بن عمرو مدني، وابن مهدي لا يحدث عن البصري ! كذا قال المصنف رحمه الله! وهو يخالف ما في تهذيب التهذيب ؛ حيث ذكر في الرواة عن البصري عبد الرحمن بن مهدي، فقد روى ابن مهدي عنهما كليهما؛ فلا بد من النظر في أمور أخرى؛ لتعيين المراد منهما. وقد ؤجِد الدليل القاطع على أنه البصري؛ خلافاً لما ذهبوا ليه، فقال الحافظ - عقب كلمته السابقة-: وقرأت بخط ابن عبد الهادي: أنه أبو سهل الذي أفرده المزي بعده، واستدل لذلك بأن الحديث الذي أخرجه أبو داود له في الأذان وقع في مسند أحمد من الطريق المذكورة؛ فوقع مُكنّىً: أبا سهل .
قلت: وهو في المسند (4/42) ، لكن وقعت فيه زيادة في إسناده أفسدته؛ ونصه: ثنا زيد بن الحُبابِ أبو الحسين العُكْلِيّ قال: أخبرني أبو سهل عن محمد ابن عمرو قال: أخبرني عبد اللّه بن محمد بن زيد عن عمه عبد الله بن زيد- رائي الأذان- قال... فذكر الحديث. والظاهر أن حرف (عن) بين (أبو سهل) و (محمد بن عمرو) زيدت خطأً من بعض النساخ، كما يشهد لذلك ما نقله الحافظ عن ابن عبد الهادي. وقال الطيالسي في مسنده (رقم 1103) : ثنا محمد بن عمرو الواقفي عن عبد الله بن محمد الأنصاري... به. ومن طريقه: أخرجه البيهقي (1/399) ، ثم فال: هكذا رواه أبو داود عن محمد بن عمرو. ورواه معن عن محمد بن عمرو الواقفي عن محمد بن سيرين عن محمد بن عبد الله بن زيد عن عبد الله بن زيد. قال البخاري: فيه نظر . فقد اتفق زيد بن الحُبابِ والطيالسي ومعْنٌ : على أنه ليس هو المدني؛ بل هو البصري الواقفي أبو سهل. وإذ الأمر كذلك؛ فيبقى النظر في ترجمة حاله، وقد ساق في التهذيب أقوال العلماء فيه، وكلُها مجتمعة على تضعيفه، وضعفه يحيى بن سعيد جداً. وأما السبب الثاني- وهو الجهالة-: فهو من قِبل محمد بن عبد الله؛ فإنه
ليس يعرف إلا في هذه الرواية، وفد قال عبد الرحمن بن مهدي- كما في الرواية الأخرى الآتية في الكتاب-: ثنا محمد بن عمرو قال: سمعت عبد الله بن محمد... فرواه على القلب! قال في التهذيب : وهو الصواب .
قلت: وكذلك رواه زيد بن الحباب والطيالسي عن محمد بن عمرو عن عبد الله ابن محمد... كما تقدم. وأما الاضطراب: فهو ما ذُكِر من الاختلاف في اسم الراوي عن عبد الله بن زيد. وفيه اختلاف آخر، هو أن حماد بن خالد قال: عن عمه عبد الله بن زيد... وكذلك قال ابن الحباب والطيالسي. وأما عبد الرحمن بن مهدي فقال: سمعت عبد الله بن محمد قال: كان جدي... فجعله من رواية عبد الله بن محمد عن جده، لا عن عمه. وهو الصواب أيضاً؛ لأن عبد الله بن محمد جدّه عبد الله بن زيد، وليس هو عمه. وخالفهم جميعاً معْن فقال: عن محمد بن عمرو الواقفي عن محمد بن سيرين عن محمد بن عبد الله بن زيد عن عبد الله بن زيد... فأدخل- بين الواقفي ومحمد بن عبد اللّه-: محمد بن سيرين، لكنه وافق حماد بن خالد في اسم محمد بن عبد الله. ولست أشك أن هذا الاضطراب إنما هو من قبل الواقفي نفسه؛ لأن الرواة عنه كلهم ثقات، وذلك مما يدل على ضعفه. من أجل ذلك؛ ضعّف الحديث البيهقيّ، كما نقله المنذري في مختصره ، وترى كلامه في ذلك آنفاً، والحافظ في بلوغ المرام . وقال البيهقي في سننه : وكان أبو بكر أحمد بن إسحاق بن أيوب الفقيه يضعف هذا الحديث بما سبق ذكره [يعني: من الاضطراب] وبما أخْبرناه... .
قلت: ثم ساق- بإسناده- الحديث المذكور في الكتاب الأخر (رقم 511) ؛ وفيه: أن الأنصار تزعم أن عبد الله بن زيد لولا أنه كان يومئذ مريضاً؛ لجعله رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مؤذناً.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب محمد بن عبداللہ اپنے چچا سیدنا عبداللہ بن زید ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے (شروع میں) اذان کے متعلق کچھ چیزوں کا ارادہ فرمایا مگر ان پر عمل نہ کیا۔ چنانچہ عبداللہ بن زید ؓ کو خواب میں اذان دکھلائی گئی تو وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ کو خبر دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ کلمات بلال کو بتاؤ۔“ چنانچہ انہوں نے بتائے اور بلال ؓ نے اذان کہی۔ عبداللہ نے کہا: میں نے یہ خواب دیکھا اور میں اس کا خواہشمند تھا فرمایا: ”تم اقامت کہہ لو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اذان کے سلسلہ میں کئی کام کرنے کا (جیسے ناقوس بجانے یا سنکھ میں پھونک مارنے کا) ارادہ کیا لیکن ان میں سے کوئی کام کیا نہیں۔ محمد بن عبداللہ کہتے ہیں: پھر عبداللہ بن زید ؓ کو خواب میں اذان دکھائی گئی تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے بلال کو سکھا دو۔“ چنانچہ عبداللہ بن زید ؓ نے اسے بلال ؓ کو سکھا دیا، اور بلال ؓ نے اذان دی، اس پر عبداللہ بن زید ؓ نے کہا: اسے میں نے دیکھا تھا اور میں ہی اذان دینا چاہتا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو تم تکبیر کہہ لو۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Zayd: The Prophet (ﷺ) intended to do many things for calling (the people) to prayer, but he did not do any of them. Then Abdullah ibn Zayd was taught in a dream how to pronounce the call to prayer. He came to the Prophet (ﷺ) and informed him. He said: Teach it to Bilal (RA). He then taught him, and Bilal (RA) made a call to prayer. Abdullah said: I saw it in a dream and I wished to pronounce it, but he (the Prophet) said: You should pronounce iqamah.