باب: یہ مسئلہ کہ ایک شخص اذان کہے اور دوسرا اقامت ( تکبیر کہے )
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: One Person Calling The Adhan And Another Calling The Iqamah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
513.
جناب محمد بن عمرو انصار مدینہ کے مشائخ میں سے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن محمد کو سنا کہتے تھے کہ میرے دادا عبداللہ بن زید ؓ یہ حدیث بیان کیا کرتے تھے۔ (عبداللہ بن محمد نے) کہا: چنانچہ میرے دادا نے اقامت (تکبیر) کہی۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: وهذا إسناد ضعيف أيضاً؛ لما ذكرنا في الرواية السابقة من حال محمد بن عمرو الواقفي، واضطرابه فيها. وعبد الله بن محمد غير مشهور. وقال البخاري: فيه نظر؛ لأنه لم يذكر سماع بعضهم من بعض ) . إسناده: حدثنا عبيد اللّه بن عمر القواريري: ثنا عبد الرحمن بن مهدي...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات غير محمد بن عمرو- وهو الأنصاري البصري أبو سهل- وهو متفق على تضعيفه، كما سبق بيانه قريباً. وعبد الله بن محمد: هو ابن عبد اللّه بن زيد بن عبد ربه الأنصاري المدني الخزرجي، وقد قال البخاري فيه... ما هو مذكور آنفاً. وقال في التهذيب : وفي إسناد حديثه اختلاف. وذكره ابن حبان في الثقات ... . وقال الحافظ في التقريب : إنه مقبول يعني: حيث يتابع، وإلا؛ فليّن الحديث. ولم نجد له متابعاً، فكان حديثه ضعيفاً. ولذلك صرح الحافظ بضعفه، كما سبق، وهو علة الحديث؛ فإن للراوي عنه قد تابعه عليه ثقة- كما يأتي-، فبرأت عهدته منه. والحديث أخرجه الدارقطني (ص 91) من طريق المصنف من الوجهين؛ ثم قال: وقال أبو داود: محمد بن عمرو مدني، وابن مهدي لا يحدث عن البصري ! كذا قال المصنف رحمه الله! وقد حققنا القول- عند الكلام على الرواية الأولى- أن محمد بن عمرو إنما هو البصري، وأنه يروي عنه أيضاً ابن مهدي؛ فراجعه. ثم لعل هذه الجملة المعترضة: (شيخ من أهل المدينة) إنما هي من المصنف رحمه الله؛ فإننا لم تجد من ذكر أن محمد بن عمرو البصري مدني أيضاً! والله أعلم. ثم إنه- أعني: البصري- لم يتفرد به؛ بتابعه أبو العُميْس- وهو عتبة بن عبد الله المسعودي- لكنه خالفه في إسناده فقال: عن عبد الله بن محمد بن عبد الله بن زيد عن أبيه عن جده... فزاد فيه: عن أبيه. أخرجه الطحاوي (1/85) ، والبيهقي (1/399) ، والحازمي في الاعتبار (ص 44) ، وقال: هذا حديث حسن، وفي إسناده مقال من حديث محمد بن عمرو . وقال البيهقي: هكذا رواه أبو العميس. وروي عن زيد بن محمد بن عبد الله عن أبيه عن جده كذلك . وقال الحافظ في التلخيص (3/202) - ما مختصره-: قال ابن عبد البر: إسناده حسن أحسن من حديث الإفريقي [قلت: يعني: الآتي في الكتاب عقب هذا]. قال الحاكم: رواه الحفاظ من أصحاب أبي العميسعن زيد بن محمد بن عبد الله بن زيد 0 وله طريق أخرى أخرجها أبو الشيخ في كتاب الأذان من حديث الحكم عن مِقْسم عن ابن عباس قال: كان أوّل من أذن
في الإسلام بلال، وأوّل من أقام عبدُ اللّهِ بنُ زيدٍ. وإسناده منقطع بين الحكم ومقسم؛ لأن هذا من الأحاديث التي لم يسمعها منه .وبالجملة؛ فالحديث ضعيف؛ لأن رواته: محمد بن عمرو الواقفي وأباالعميس وأصحابه اضطربوا في إسناده، ولأن مداره على محمد بن عبد الله- وهو غير معروف-؛ أو عبد الله بن محمد- وهو غير مشهور- كما سبق ذلك- أو زيد بن محمد بن عبد الله- ولم أجد من ترجمه-! والشاهد المذكور عن ابن عباس؛ فيه ذلك الانقطاع المتضمن لواسطة مجهول، فلم تطمئن نفسي لتقوية الحديث به؛ لا سيما وأن الحديث قد ورد من طرق عن صاحب القصة عبد اللّه بن زيد في الكتاب الآخر (رقم 512- 514) - وليس في شيء منها ما في هذا الحديث من إقامة عبد الله بعد أذان بلال، بل في بعضها ما ينفي ذلك، كما نقلناه عن البيهقي قُبيْل هذه الرواية. والله أعلم. ويخالفه حديث الإفريقي الذي أشار إليه ابن عبد البر؛ وهو:
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب محمد بن عمرو انصار مدینہ کے مشائخ میں سے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن محمد کو سنا کہتے تھے کہ میرے دادا عبداللہ بن زید ؓ یہ حدیث بیان کیا کرتے تھے۔ (عبداللہ بن محمد نے) کہا: چنانچہ میرے دادا نے اقامت (تکبیر) کہی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن محمد کہتے ہیں میرے دادا عبداللہ بن زید ؓ یہ حدیث بیان کرتے تھے، اس میں ہے: ”تو میرے دادا نے اقامت کہی۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
This tradition has also been transmitted through a different chain of narrators by ‘Abd Allah b. Zaid. He said: My grandfather pronounced the Iqamah.