Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Proclaiming The Adhan In A Loud Voice)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
516.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان کہی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر پاد مارتا ہوا پلٹ جاتا ہے۔ (اور اتنی دور چلا جاتا ہے) حتیٰ کہ اذان نہیں سنتا۔ جب اذان مکمل ہو جاتی ہے تو لوٹ آتا ہے۔ پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے۔ اور جب اقامت ہو جاتی ہے تو لوٹ آتا ہے اور نمازی کے دل میں طرح طرح کے خیالات ڈالتا ہے اور کہتا ہے: یہ یاد کر، ایسی ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہ آتی ہوں۔ حتیٰ کہ آدمی کو خیال ہی نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔“
تشریح:
بظاہر شیطان سے مراد ابلیس ہی ہے اور ممکن ہے کہ شیاطین الجن مراد ہوں۔ 2۔ زور سے اور آواز سے شیطان سے ریح کا خارج ہونا دلیل ہے۔ کہ اذان کے مبارک کلمات میں وزن ہے۔ 3۔ اذا ن کے وقت شور کرنا شیطانی عمل کے ساتھ مشابہت ہے۔ 4۔ شیطان مسلمان نمازیوں پر بار بار حملے کرتا ہے اور نبی کریمﷺ نے بھی علاج بیان فرمایا ہے کہ ایسی صورت میں تعوذ پڑھا جائے۔ اور بایئں طرف پھونک ماری جائے۔ خیال کیا جائے کہ بے نماز لوگوں پر اس کے حملے کتنے شدید ہوں گے۔ 5۔ اذان میں آواز خوب بلند کرنی چاہیے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کا شعار ہے۔ لیکن آواز کی یہ بلندی اسی طرح اس حد تک ہو کہ اس میں کراہت ار بھدا پن پیدا نہ ہو۔ کیونکہ رفع صوت کے ساتھ حسن صوت بھی مطلوب اور پسندیدہ ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وكذا أبو عوانة في صحاحهم ) . إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن الأعرج عن أبي هريرة. قلت: وهذا سند صحيح على شرط الشيخين.ب والحديث أخرجه مالك في الموطأ (1/89- 91) . ومن طريقه: أخرجه البخاري (2/67- 69 و 3/81) ، وأبو عوانة في صحيحه (1/434) ، والنسائي (1/108- 109) ، وأحمد (2/460) كلهم عن مالك... به. ثم أخرجه البخاري (3/70) ، وكذا مسلم (2/6) من طرق أخرى عن الأعرج... به. وله طرق أخرى عن أبي هريرة: فأخرجه البخاري (6/261- 262) ، والدارمي (1/273- 274) ، والطيالسي (رقم 2345) ، وأحمد (2/و 483 و 503- 504 و 522) - من طريق أبي سلمة-، ومسلم (2/5) وأحمد (2/ما 3 و 531) والبيهقي (1/432) - من طريق أبي صالح-، ومسلم أيضا (2/6) ، وأحمد (2/313) - من طريق همام بن منبه-، ورواه البيهقي أيضا، وأحمد (2/411) - من طريق العلاء؛ وهو ابن عبد الرحمن عن أبيه-، كلهم عن أبي هريرة مطولاً ومختصراً. وأخرجه أبو عوانة أيضا من حديث أبي صالح مختصراً.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان کہی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر پاد مارتا ہوا پلٹ جاتا ہے۔ (اور اتنی دور چلا جاتا ہے) حتیٰ کہ اذان نہیں سنتا۔ جب اذان مکمل ہو جاتی ہے تو لوٹ آتا ہے۔ پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے۔ اور جب اقامت ہو جاتی ہے تو لوٹ آتا ہے اور نمازی کے دل میں طرح طرح کے خیالات ڈالتا ہے اور کہتا ہے: یہ یاد کر، ایسی ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہ آتی ہوں۔ حتیٰ کہ آدمی کو خیال ہی نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
بظاہر شیطان سے مراد ابلیس ہی ہے اور ممکن ہے کہ شیاطین الجن مراد ہوں۔ 2۔ زور سے اور آواز سے شیطان سے ریح کا خارج ہونا دلیل ہے۔ کہ اذان کے مبارک کلمات میں وزن ہے۔ 3۔ اذا ن کے وقت شور کرنا شیطانی عمل کے ساتھ مشابہت ہے۔ 4۔ شیطان مسلمان نمازیوں پر بار بار حملے کرتا ہے اور نبی کریمﷺ نے بھی علاج بیان فرمایا ہے کہ ایسی صورت میں تعوذ پڑھا جائے۔ اور بایئں طرف پھونک ماری جائے۔ خیال کیا جائے کہ بے نماز لوگوں پر اس کے حملے کتنے شدید ہوں گے۔ 5۔ اذان میں آواز خوب بلند کرنی چاہیے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کا شعار ہے۔ لیکن آواز کی یہ بلندی اسی طرح اس حد تک ہو کہ اس میں کراہت ار بھدا پن پیدا نہ ہو۔ کیونکہ رفع صوت کے ساتھ حسن صوت بھی مطلوب اور پسندیدہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے یہاں تک کہ (وہ اتنی دور چلا جاتا ہے کہ) اذان نہیں سنتا، پھر جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے، لیکن جوں ہی تکبیر شروع ہوتی ہے وہ پھر پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو شیطان دوبارہ آ جاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے، کہتا ہے: فلاں بات یاد کرو، فلاں بات یاد کرو، ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہیں تھیں یہاں تک کہ اس شخص کو یاد نہیں رہ جاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں؟“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: When the call to prayer is made; the devil turns his back and breaks wind so as not to hear the call being made; but when the call is finished, he turns round. When the second call to prayer (iqamah) is made, he turns his back, and when the second call is finished, he turns round and suggest notions in the mind of the man (at prayer) to distract his attention, saying: remember such and such, referring to something the man did not have n mind, with the result that he does not know how much he has prayed.