Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Taking A Stipend For The Adhan)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
531.
سیدنا عثمان بن ابی العاص ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اپنی قوم کا امام بنا دیجئیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم ان کے امام ہو اور ان کے ضعیف ترین کی اقتداء (رعایت) کرنا اور مؤذن ایسا مقرر کرنا جو اپنی اذان پر اجرت نہ لے۔“
تشریح:
اس روایت کا آخری حصہ اور موذن ایسا مقرر کرنا جو اپنی اذان پر اجرت نہ لے۔ اولیٰ کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی افضل یہی ہے۔ کہ یہ منصب کسی ایسے شخص کے سپرد کیا جائے۔ جو اللہ کی رضا کےلئے یہ کام کرے۔ اگر ایسا کوئی شخص میسر نہ ہو تو تنخواہ پر موذن رکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس عمل میں ایک اہم دینی مصلحت ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت (وفي رواية: أن عثمان ابن أبي العاص قال) : يا رسول الله! اجعلني إمام قَوْمِي. قال: أنت إمامهم، واقْتَدِ بأضعفهم، واتَّخِذْ مؤذناً لا يأخذ على أذانه أجراً .
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم، وكذا قال الحاكم، ووافقه الذهبي. وأخرجه أبو عوانة في صحيحه نحوه بتمامه، ومسلم: الفصل الأول منه، والترمذي: الفصل الأخير، وقال: حديث حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد: أنا سعيد الجُريري عن أبي العلاء عن مُطَرف بن عبد الله عن عثمان بن أبي العاص قال: قلت... وقال موسى في موضع آخر: إن... قلت: وهذا إسناد صحيح، رجأله كلهم ثقات على شرط مسلم؛ وحماد: هو ابن سلمة. وقد تابعه حماد بن زيد، كما يأتي. والحديث أخرجه النسائي (1/9؟ ا) ، والطحاوي (2/270) ، والحاكم (1/199 و 201) ، وعنه البيهقي (1/429) ، وأحمد (4/21 و 217) من طرق أخرى عن حماد بن سلمة... به. وقال الحاكم: صحيح على شرط مسلم ، ووافقه الذهبي. ثم أخرجه أحمد من طريق عفان قال: ثنا حماد بن زيد: أنا سعيد الجريري... به. وهذا سند صحيح على شرط الشيخين. وللحديث طريق أخرى: أخرجها أبو عوانة في صحيحه (2/86- 87) من طريق عمرو بن عثمان بن مَوْهَبٍ عن موسى بن طلحة عن عثمان بن أبي العاص قال: قال النبي عَبيصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمَّ قومَكَ، وصلِّ بهم صلاة أضعفهم. .. الحديث، وزاد في رواية: واتخذ مؤذناً... إلخ. وإسنادها صحيح. وهو في مسلم (2/43- 44) بدونها. وقد أخرجها وحدها: الترمذيّ (1/409- 410) ، وابن ماجه (1/244) ، والحميدي في مسنده (906) ، وابن حزم (3/145) من طريق أشعث بن عبد الملك الحُمْرَاني عن الحسن عن عثمان بن أبي العاص. وقال الترمذي حديث حسن صحيح . وله شاهد: يرويه الوليد بن مسلم عن سعيد القطيعي عن المغيرة بن شعبة قال: سألت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أن يجعلتي إمام قومي، فقال... فذكره نحوه. أحرجه الطبراني في الكبير (20/434- 435) . ورجاله ثقات؛ غير سعيد هذا، ويمكن أن يكون الذي في الجرح (2/1/56/245) : سعيد بن قطن القطعي.. شيخ ! فإن كان هو؛ فهو- في ظني- منقطع بينه وبين المغيرة، أو بينه وبين الوليد!
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا عثمان بن ابی العاص ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اپنی قوم کا امام بنا دیجئیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم ان کے امام ہو اور ان کے ضعیف ترین کی اقتداء (رعایت) کرنا اور مؤذن ایسا مقرر کرنا جو اپنی اذان پر اجرت نہ لے۔“
حدیث حاشیہ:
اس روایت کا آخری حصہ اور موذن ایسا مقرر کرنا جو اپنی اذان پر اجرت نہ لے۔ اولیٰ کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی افضل یہی ہے۔ کہ یہ منصب کسی ایسے شخص کے سپرد کیا جائے۔ جو اللہ کی رضا کےلئے یہ کام کرے۔ اگر ایسا کوئی شخص میسر نہ ہو تو تنخواہ پر موذن رکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس عمل میں ایک اہم دینی مصلحت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عثمان بن ابی العاص ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم ان کے امام ہو تو تم ان کے کمزور ترین لوگوں کی رعایت کرنا، اور ایسا مؤذن مقرر کرنا جو اذان پر اجرت نہ لے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Uthman ibn Abul 'As: Apostle of Allah, appoint me the leader of the tribe in prayer. He said: You are their leader, but you should follow on who is the weakest of them: and appoint a mu'adhdhin who does not charge for the calling of adhan.