Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Adhan Of A Blind Man)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
535.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن ام مکتوم ؓ رسول اللہ ﷺ کے مؤذن تھے اور نابینا تھے۔
تشریح:
نابینے شخص کا اذان دینا یا امامت کا اہل ہونے کی صورت میں امامت کرانا بالکل صحیح اور جائز ہے۔ اذان کے بارے میں ظاہر ہے کہ کوئی دوسرا ہی اس کی رہنمائی کرےگا۔ اور آج کل تو ایسی گھڑیاں بھی ایجاد ہوچکی ہیں۔ جن سے ایسے لوگوں کو وقت معلوم کرنے میں دقت نہیں ہوتی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه في صحيحه بإسناد المصنف. وعنه رواه أبو عوانة في صحيحه ) . إسناده: حدثنا محمد بن سلمة: ثنا ابن وهب عن يحيى بن عبد الله بن سالم بن عبد الله بن عمر، وسعيد بن عبد الرحمن عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وسعيد بن عبد الرحمن هذا: هو ابن عبد الله بن جميل بن عامر الجمَحِيُّ أبو عبد الله المدني قاضي بغداد، وهو ثقة، وفيه ضعف يسير من قبل حفظه. على أن حديثه هذا مقرون برواية يحيى بن عبد الله بن سالم؛ وهو تقة من رجال مسلم أيضا؛ ولم يتفردا به. والحديث أخرجه أبو عوانة في صحيحه (1/335) عن المصنف. وكذلك أخرجه البيهقي (1/427) . وأخرجه مسلم (2/3) بإسناد المصنف. ثم أخرجه- من طريق محمد بن جعفر-، وأبو عوانة- من طريق الدراوردي- كلاهما عن هشام... به. وللحديث طريق أخرى عنها: أخرجه مسلم (3/129) ، والدارمي (1/270) ، والبيهقي (1/382) من طريق عبيد الله بن عمر عن القاسم بن محمد عن عائشة. وعن نافع عن ابن عمر قالا: كان للنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مؤذنان: بلال وابن أم مكتوم؛ فقال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إن بلالاً يؤذن بليل... الحديث. وله طريق ثالث بلفظ: كان للنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثلاثة مؤذنين: بلال وأبو محذورة وابن أم مكتوم. أخرجه البيهقي (1/429) من طريق أبي إسحاق عن الأسود عنها. وإسناده صحيح. وقال البيهقي: قال أبو بكر بن إسحاق: والخبران صحيحان- يعني: هذا وما تقدم-، فمن قال: كان له مؤذنان؛ أراد اللذين كانا يؤذنان بالمدينة. ومن قال: ثلاثة؛ أراد أبا محذورة الذي كان يؤذن بمكة .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن ام مکتوم ؓ رسول اللہ ﷺ کے مؤذن تھے اور نابینا تھے۔
حدیث حاشیہ:
نابینے شخص کا اذان دینا یا امامت کا اہل ہونے کی صورت میں امامت کرانا بالکل صحیح اور جائز ہے۔ اذان کے بارے میں ظاہر ہے کہ کوئی دوسرا ہی اس کی رہنمائی کرےگا۔ اور آج کل تو ایسی گھڑیاں بھی ایجاد ہوچکی ہیں۔ جن سے ایسے لوگوں کو وقت معلوم کرنے میں دقت نہیں ہوتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ابن ام مکتوم ؓ رسول اللہ ﷺ کے مؤذن تھے اور وہ نابینا تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Aishah (RA) reported: Ibn Umm Maktum (RA) was the mu'adhdhin of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and he was blind.