تشریح:
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اہم مسئلہ واضح فرمایا ہے۔ کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں اپنی سوچ اور فہم واستدلال کو اہمیت دے۔ اس پر اصرار میں کفر کا اندیشہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ) (الأحزاب ۔36) کسی بھی مومن مرد عورت کو حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کررسول ﷺ کسی معاملے کا فیصلہ فرما دیں تو انھیں اپنے معاملے کا اختیار رہے۔ افسوس ہے ایسے مسلمان کہلوانے والوں پر جو اپنے زوق ومزاج عادات ورسم رواج اور اپنے امام کے قول پر ایسے سخت ہوتے ہیں۔ کہ آیات قرآنیہ کی تاویل اور احادیث صحیحہ کا انکار کرتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ آئمہ عظام کی اپنی سیرتیں اور ان کے اقوال اس معاملے میں انتہائی صاف اور بے میل ہیں۔ بطورمثال امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ إذا صح الحديث فهو مذهبي (حاشیة ابن عابدین: 68/1) صحیح حدیث میرا مذہب ہے۔ (لا يحل لأحد أن يأخذ بقولنا ما لم يعلم من أين أخذنا) (الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة من الفقهاء، لابن عبدالبر) کسی کو روا نہیں کہ ہمارا قول اختیار کرے۔ جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہم نے اسے کہاں سے لیا ہے۔ ایک قول کے الفاظ یوں ہیں۔ (حرام علی من لم يعرف دليلي أن يفتني بكلامي) جس شخص کو میری دلیل معلوم نہ ہو اسے میرے قول پر فتویٰ دینا حرام ہے۔ایسے ہی دیگر آئمہ کرام کے اقوال بھی اس مفہوم میں ثابت ہیں۔
2۔ ان احادیث کی رو سے عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ با پردہ ہوں۔ خوشبو اور دیگر زیب وزینت سے مبرا ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ اصلاح حال فرمائے۔صورت حال واقعتا ً خطرناک ہے۔
3۔ ان احادیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے۔ کہ شوہر اپنی بیوی کو حج یا عمرہ کے سفر سے نہیں روک سکتا۔ کیونکہ یہ سفر مسجد حرام کی طرف ہوتا ہے۔ اور یہ تمام مساجد سے افضل ہے۔ اور حج اور عمرہ شرعی فرائض میں سے ہیں۔ اس لئے استطاعت کی صورت میں خاوند کو بیوی کا یہ جائز اور شرعی مطالبہ اولین فرصت میں پورا کرنے کا اہمتام کرنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجاه في صحيحيهما . ورواه أبو عوانة في صحيحه عن المصنف. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ، وليس عند البخاري قصة الابن) . إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا جَرِير وأبو معاوية عن الأعمش عن مجاهد.
قلت. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين . والحديث أخرجه أبو عوانة (2/58) من طريق المؤلف. وأخرجه مسلم (2/33) من طريق أبي معاوية وحده. ثم أخرجاه هما، والترمذي (2/459) ، والطيالسي (رقم 1894) ، وعنه البيهقي (3/132) ، وأحمد (رقم 5021 و 5101 و 6101) من طرق أخر عن الأعمش... به. وقال الترمذي: حسن صحيح . وأخرجه البخاري (2/306) ومسلم أيضا من طريق عمرو بن دينار عن مجاهد... به. وهو عند الطيالسي (رقم 1994) من طريق أخرى عن عمرو بن دينار عن ابن عمر؛ بإسقاط مجاهد من بينهما. وكذلك أخرجه أبو عوانة (2/58) من طريق الطيالسي؛ وقد سمع عمرو من ابن عمر. وله في المسند (رقم 4933 و 5101 و 5725) طرق أخرى عن مجاهد؛ وزاد في بعضها: فما كلَّمه عبدُ الله حتى مات. وإسنادها صحيح. ورواه الشيخان وأبو عوانة في صحاحهم من طريق سالم بن عبد الله عن ابن عمر. ومسلم وأبو عوانة من طريق بلال بن عبد الله بن عمر عن أبيه؛ وفيه أن القائل: لا نأذن لهن. . . هو ابنه بلال هذا. وكذلك في رواية لهما عن سالم. وأخرجها أحمد أيضا (2/140) ، لكن في رواية عمرو بن دينار- عند مسلم-: أن اسم الابن: (واقد) ! لكن هذه الرواية شاذة، كما أشار إلى ذلك الحافظ في الفتح (2/278)، وقال: والراجح أن صاحب القصة بلال؛ لورود ذلك من روايته نفسه، ومن رواية أخيه سالم، ولم يختلف عليهما في ذلك . قال: فإن كانت رواية عمرو بن دينار عن مجاهد محفوظة في تسميته (واقدا) ؛ فيحتمل أن يكون كل من بلال وواقد وقع منه ذلك؛ إما في مجلس أو في مجلسين، وأجاب ابن عمر كلاً منهما بجواب يليق به .