Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: What Has Been Narrated Concerning Women Leaving (Their House) For The Masjid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
568.
جناب مجاہد نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”عورتوں کو رات کے وقت مساجد میں جانے کی خاطر اجازت دے دیا کرو۔“ اس پر ان کے ایک صاحبزادے نے ان سے کہا: قسم اللہ کی! ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے۔ وہ اسے (باہر نکلنے کا) ایک بہانہ بنا لیں گی۔ قسم اللہ کی! ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے۔ تو سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے اسے بہت سخت سست کہا اور ناراض ہو گئے۔ کہا کہ میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”ان کو اجازت دو۔“ اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے۔
تشریح:
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اہم مسئلہ واضح فرمایا ہے۔ کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں اپنی سوچ اور فہم واستدلال کو اہمیت دے۔ اس پر اصرار میں کفر کا اندیشہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ)(الأحزاب ۔36) کسی بھی مومن مرد عورت کو حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کررسول ﷺ کسی معاملے کا فیصلہ فرما دیں تو انھیں اپنے معاملے کا اختیار رہے۔ افسوس ہے ایسے مسلمان کہلوانے والوں پر جو اپنے زوق ومزاج عادات ورسم رواج اور اپنے امام کے قول پر ایسے سخت ہوتے ہیں۔ کہ آیات قرآنیہ کی تاویل اور احادیث صحیحہ کا انکار کرتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ آئمہ عظام کی اپنی سیرتیں اور ان کے اقوال اس معاملے میں انتہائی صاف اور بے میل ہیں۔ بطورمثال امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ إذا صح الحديث فهو مذهبي(حاشیة ابن عابدین: 68/1) صحیح حدیث میرا مذہب ہے۔ (لا يحل لأحد أن يأخذ بقولنا ما لم يعلم من أين أخذنا)(الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة من الفقهاء، لابن عبدالبر) کسی کو روا نہیں کہ ہمارا قول اختیار کرے۔ جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہم نے اسے کہاں سے لیا ہے۔ ایک قول کے الفاظ یوں ہیں۔ (حرام علی من لم يعرف دليلي أن يفتني بكلامي) جس شخص کو میری دلیل معلوم نہ ہو اسے میرے قول پر فتویٰ دینا حرام ہے۔ایسے ہی دیگر آئمہ کرام کے اقوال بھی اس مفہوم میں ثابت ہیں۔ 2۔ ان احادیث کی رو سے عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ با پردہ ہوں۔ خوشبو اور دیگر زیب وزینت سے مبرا ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ اصلاح حال فرمائے۔صورت حال واقعتا ً خطرناک ہے۔ 3۔ ان احادیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے۔ کہ شوہر اپنی بیوی کو حج یا عمرہ کے سفر سے نہیں روک سکتا۔ کیونکہ یہ سفر مسجد حرام کی طرف ہوتا ہے۔ اور یہ تمام مساجد سے افضل ہے۔ اور حج اور عمرہ شرعی فرائض میں سے ہیں۔ اس لئے استطاعت کی صورت میں خاوند کو بیوی کا یہ جائز اور شرعی مطالبہ اولین فرصت میں پورا کرنے کا اہمتام کرنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجاه في صحيحيهما . ورواه أبو عوانة في صحيحه عن المصنف. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ، وليس عند البخاري قصة الابن) . إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا جَرِير وأبو معاوية عن الأعمش عن مجاهد.
قلت. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين . والحديث أخرجه أبو عوانة (2/58) من طريق المؤلف. وأخرجه مسلم (2/33) من طريق أبي معاوية وحده. ثم أخرجاه هما، والترمذي (2/459) ، والطيالسي (رقم 1894) ، وعنه البيهقي (3/132) ، وأحمد (رقم 5021 و 5101 و 6101) من طرق أخر عن الأعمش... به. وقال الترمذي: حسن صحيح . وأخرجه البخاري (2/306) ومسلم أيضا من طريق عمرو بن دينار عن مجاهد... به. وهو عند الطيالسي (رقم 1994) من طريق أخرى عن عمرو بن دينار عن ابن عمر؛ بإسقاط مجاهد من بينهما. وكذلك أخرجه أبو عوانة (2/58) من طريق الطيالسي؛ وقد سمع عمرو من ابن عمر. وله في المسند (رقم 4933 و 5101 و 5725) طرق أخرى عن مجاهد؛ وزاد في بعضها: فما كلَّمه عبدُ الله حتى مات. وإسنادها صحيح. ورواه الشيخان وأبو عوانة في صحاحهم من طريق سالم بن عبد الله عن ابن عمر. ومسلم وأبو عوانة من طريق بلال بن عبد الله بن عمر عن أبيه؛ وفيه أن القائل: لا نأذن لهن. . . هو ابنه بلال هذا. وكذلك في رواية لهما عن سالم. وأخرجها أحمد أيضا (2/140) ، لكن في رواية عمرو بن دينار- عند مسلم-: أن اسم الابن: (واقد) ! لكن هذه الرواية شاذة، كما أشار إلى ذلك الحافظ في الفتح (2/278)، وقال: والراجح أن صاحب القصة بلال؛ لورود ذلك من روايته نفسه، ومن رواية أخيه سالم، ولم يختلف عليهما في ذلك . قال: فإن كانت رواية عمرو بن دينار عن مجاهد محفوظة في تسميته (واقدا) ؛ فيحتمل أن يكون كل من بلال وواقد وقع منه ذلك؛ إما في مجلس أو في مجلسين، وأجاب ابن عمر كلاً منهما بجواب يليق به .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب مجاہد نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”عورتوں کو رات کے وقت مساجد میں جانے کی خاطر اجازت دے دیا کرو۔“ اس پر ان کے ایک صاحبزادے نے ان سے کہا: قسم اللہ کی! ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے۔ وہ اسے (باہر نکلنے کا) ایک بہانہ بنا لیں گی۔ قسم اللہ کی! ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے۔ تو سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے اسے بہت سخت سست کہا اور ناراض ہو گئے۔ کہا کہ میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”ان کو اجازت دو۔“ اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اہم مسئلہ واضح فرمایا ہے۔ کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں اپنی سوچ اور فہم واستدلال کو اہمیت دے۔ اس پر اصرار میں کفر کا اندیشہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ)(الأحزاب ۔36) کسی بھی مومن مرد عورت کو حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کررسول ﷺ کسی معاملے کا فیصلہ فرما دیں تو انھیں اپنے معاملے کا اختیار رہے۔ افسوس ہے ایسے مسلمان کہلوانے والوں پر جو اپنے زوق ومزاج عادات ورسم رواج اور اپنے امام کے قول پر ایسے سخت ہوتے ہیں۔ کہ آیات قرآنیہ کی تاویل اور احادیث صحیحہ کا انکار کرتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ آئمہ عظام کی اپنی سیرتیں اور ان کے اقوال اس معاملے میں انتہائی صاف اور بے میل ہیں۔ بطورمثال امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ إذا صح الحديث فهو مذهبي(حاشیة ابن عابدین: 68/1) صحیح حدیث میرا مذہب ہے۔ (لا يحل لأحد أن يأخذ بقولنا ما لم يعلم من أين أخذنا)(الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة من الفقهاء، لابن عبدالبر) کسی کو روا نہیں کہ ہمارا قول اختیار کرے۔ جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہم نے اسے کہاں سے لیا ہے۔ ایک قول کے الفاظ یوں ہیں۔ (حرام علی من لم يعرف دليلي أن يفتني بكلامي) جس شخص کو میری دلیل معلوم نہ ہو اسے میرے قول پر فتویٰ دینا حرام ہے۔ایسے ہی دیگر آئمہ کرام کے اقوال بھی اس مفہوم میں ثابت ہیں۔ 2۔ ان احادیث کی رو سے عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ با پردہ ہوں۔ خوشبو اور دیگر زیب وزینت سے مبرا ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ اصلاح حال فرمائے۔صورت حال واقعتا ً خطرناک ہے۔ 3۔ ان احادیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے۔ کہ شوہر اپنی بیوی کو حج یا عمرہ کے سفر سے نہیں روک سکتا۔ کیونکہ یہ سفر مسجد حرام کی طرف ہوتا ہے۔ اور یہ تمام مساجد سے افضل ہے۔ اور حج اور عمرہ شرعی فرائض میں سے ہیں۔ اس لئے استطاعت کی صورت میں خاوند کو بیوی کا یہ جائز اور شرعی مطالبہ اولین فرصت میں پورا کرنے کا اہمتام کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجاہد کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: ”تم عورتوں کو رات میں مسجد جانے کی اجازت دے دیا کرو۔“ اس پر ان کے ایک لڑکے (بلال) نے کہا: قسم اللہ کی! ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسے فساد کا ذریعہ بنائیں، قسم اللہ کی! ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ مجاہد کہتے ہیں: اس پر انہوں نے (عبداللہ بن عمر ؓ نے) (اپنے بیٹے کو) بہت سخت سست کہا اور غصہ ہوئے، پھر بولے: میں کہتا ہوں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”تم انہیں اجازت دو“ اور تم کہتے ہو: ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: گویا تم اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل لا رہے ہو، احمد کی ایک روایت (۲/۳۶) میں ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے زندگی بھر اس لڑکے سے بات نہیں کی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک اہم مسئلہ واضح فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں اپنی سوچ اور فہم و استدلال کو اہمیت دے۔ قرآن مجید میں ہے (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ)”کسی بھی مومن مرد یا عورت کو حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ فرما دیں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار رہے۔“(الأحزاب، ۳۶)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Abd Allah b. ‘Umar (RA) reported the prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying; Allow women to visit the mosque at night. A son of his (Bilal) said; I swear by Allah, we shall certainly not allow them because they will defraud. I swear by Allah, we shall not allow them. He (Ibn ‘Umar) abused him and became angry at him and said: I tell you that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: Allow them; yet you say; we shall not allow them.