Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Concerning The Position Of The Imam And Its Virtue)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
580.
سیدنا عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا فرماتے تھے: ”جو شخص لوگوں کی امامت کرائے اور بروقت کرائے تو یہ اس کے لیے، اور نمازیوں کے لیے باعث اجر ہے اور جس نے اس میں کوئی کمی کی تو اس کا گناہ امام پر ہے نمازیوں پر نہیں۔“
تشریح:
امام کی زمہ داری انتہائی اہم ہے۔ اسے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا متبع ہوتے ہوئے لوگوں کا مقتدا (پیشوا) بننا چاہیے۔ نہ کہ ان کی منشاء پر چلنے والا۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے۔جب وہ صاحب علم وفراست ہو صرف اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ للہیت۔ اور داعیانہ جزبات سے مملو ہو۔ گویا امام صاحب کی عظیمت بھی ہونا چاہیے۔ اور اپنی زمہ داری کو صحیح طریقے سے ادا کرنے والا بھی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وصححه الحاكم، ووافقه الذهبي) . إسناده: حدثنا سليمان بن داود المَهْرِيٌ : ثنا ابن وهب: أخبرني يحيى بن أيوب عن عبد الرحمن بن حرملة عن أبي علي الهَمْدَاني قال: سمعت عقبة بن عامر يقول...
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات؛ لكن في عبد الرحمن بن حرملة كلام من قبل حفظه؛ إلا أنه لم يفحش؛ فقد قال ابن عدي: لم أر في حديثه حديثاً منكراً . فهو حسن الحديث محتج به؛ ما لم يظهر خطؤه، وقد روى له مسلم متابعة. وقال فيه الحافظ: صدوق ربما أخطأ . وأبو علي الهمداني: اسمه ثمَامة بن شفَي، وهو ثقة من رجال مسلم. وأعله بعضهم بـ (يحيى) ابن أيوب؛ وهو المصري؛ قال المناوي: قال عبد الحق: فيه يحيى بن أيوب، لا يحتج به. وقال ابن القطان: لولا هو؛ لكنا نقول: الحديث صحيح !
قلت: وهذا ذهول عن كونه لم يتفرد بالحديث؛ بل تابعه عليه جماعة، كما يأتي! على أنه في نفسه ثقة محتج به في الصحيحين ؛ وإن كان في حفظه ضعف؛ فهو في ذلك نحو شيخه عبد الرحمن بن حرملة. والحديث أخرجه الحاكم (1/210) - عن حرملة بن يحيى-، و (1/313) - عن أحمد بن صالح المصري-، والطحاوي في المشكل (3/54) : ثنا يونس بن عبد الأعلى- قالوا: ثنا ابن وهب... به. وأخرجه البيهقي (3/127) من طريق سعيد بن أبي مريم: آبَنا يحيى بن أيوب... به. وقد تناقض فيه الحاكم؛ فقال في الموضع الأول: حديث صحيح على شرط البخاري ! ووافقه الذهبي! وقال في الموضع الآخر: صحيح؛ فقد احتج مسلم بعبد الرحمن بن حرملة، واحتج البخاري بـ (يحيى) ابن أيوب ! وقوله هذا أقرب إلى الصواب، وإن كان أخطأ في قوله: احتج مسلم بعبد الرحمن ! فإنما روى له متابعة كما سبق، وصرح بذلك الحافظ في التهذيب . وأخرجه ابن ماجه (1/311) - عن ابن أبي حازم-، والحاكم أيضا- عن وهيب-، وأحمد (4/146) - عن عَطاف-، و (4/201) - عن علي بن عاصم- كلهم عن عبد الرحمن بن حرملة... به، ولم يسم عَطَّاف شيخَ ابن حرملة؛ وإنما قال: عن رجل من جهينة! وقد تابعه عبد الله بن عامر الأسلمي عن أبي علي المصري...به نحوه: أخرجه أحمد (4/154 و 156) . وعبد الله هذا ضعيف؛ لسوء حفظه، وهو ممن يكتب حديثه كما قال ابن عدي. ومن طريقه: رواه الطيالسي أيضا (رقم 1004) ؛ ولكنه لم يُسَمهِ. وللحديث شاهد من حديث أبي هريره مرفوعاً بلفظ: يصلون لكم؛ فإن أصابوا فلكم ولهم، وإن أخطأوا فلكم وعليهم . أخرجه البخاري (2/149) ، وأحمد (2/355 و 536- 537) ، ومن طريقه البيهقي (3/126-127) من طريق عطاء بن يسارعنه. ورواه الشافعي في الأم (1/141) من طريق أخرى تعليقاً مجزوماً به. فقال: روى صفوان بن سليم عن ابن المسيب عن أبي هريرة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: يأتي قوم فيصلون لكم؛ فإن أتموا كان لهم ولكم، وإن نقصوا كان عليهم ولكم ... . وقال الحافظ في الفتح : وقد أخرج ابن حبان حديث أبي هريرة من وجه آخر، ولفظه: يكون أقوام يصلون الصلاة؛ فإن أتموا فلكم ولهم ... .
قلت: وتمامه: وإن انتقصوا فعليهم ولكم ؛ كما في موارد الظمآن . عن أبي علي الإفريقي عن صفوان بن سُلَيْم. وله شاهد آخر من حديث سهل بن سعد: أخرجه ابن ماجه، والحاكم (1/216) ، وقال: صحيح على شرط مسلم ! ووافقه الذهبي! وأخطآ؛ فإن في إسناده عبد الحميد بن سليمان أخا فليح؛ وقد ضعفه الجمهور، ولم يخرج له مسلم!
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا فرماتے تھے: ”جو شخص لوگوں کی امامت کرائے اور بروقت کرائے تو یہ اس کے لیے، اور نمازیوں کے لیے باعث اجر ہے اور جس نے اس میں کوئی کمی کی تو اس کا گناہ امام پر ہے نمازیوں پر نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
امام کی زمہ داری انتہائی اہم ہے۔ اسے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا متبع ہوتے ہوئے لوگوں کا مقتدا (پیشوا) بننا چاہیے۔ نہ کہ ان کی منشاء پر چلنے والا۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے۔جب وہ صاحب علم وفراست ہو صرف اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ للہیت۔ اور داعیانہ جزبات سے مملو ہو۔ گویا امام صاحب کی عظیمت بھی ہونا چاہیے۔ اور اپنی زمہ داری کو صحیح طریقے سے ادا کرنے والا بھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جس نے لوگوں کی امامت کی اور وقت پر اسے اچھی طرح ادا کیا تو اسے بھی اس کا ثواب ملے گا اور مقتدیوں کو بھی، اور جس نے اس میں کچھ کمی کی تو اس کا وبال صرف اسی پر ہو گا ان (مقتدیوں) پر نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Uqbah ibn 'Amir: I heard the Apostle of Allah (ﷺ) say: He who leads the people in prayer, and he does so at the right time, will receive, as well as those who are led (in prayer) will get (the reward). He who delays (prayer) from the appointed time will be responsible (for this delay) and not those who are led in prayer.