Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Who Has More Right To Be Imam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
588.
جناب نافع، سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے راوی ہیں کہ جب مہاجرین اولین رسول اللہ ﷺ سے پہلے ہجرت کر کے آئے تو انہوں نہ مقام عصبہ پر (قباء کے قریب) پڑاؤ کیا تو سالم مولیٰ ابی حذیفہ ؓ ان کی امامت کرایا کرتے تھے۔ ان لوگوں میں انہیں ہی قرآن سب سے زیادہ یاد تھا۔ ہیثم نے اضافہ کیا کہ اس جماعت میں سیدنا عمر بن خطاب اور ابوسلمہ بن عبدالاسد ؓ بھی ہوتے تھے۔
تشریح:
یہ حفظ قرآن کی برکت تھی۔ کہ قریش کے اشراف کے مقابلے میں ایک نو عمرغلام ان کا امام تھا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسنادهما صحيح، والأولى على شرط مسلم والبخاري. وقد أخرجها في صحيحه ، وأخرج الرواية الأ خرى بنحوها) إسناده: حدثنا القعنبي: ثنا أنس- يعني: ابن عياض-. (ح) وحدثنا الهيثم ابن خالد الجهني- المعنى- قالا: ثنا ابن نمير عن عبيد الله عن نافع عن ابن عمر.
قلت: والإسناد الأول صحيح على شرط الشيخين، والآخر صحيح؛ فإن الهيثم بن خالد هذا- وإن كان ثقة- فلم يخرج له الشيخان. والحديث أخرجه البيهقي (3/89) عن المؤلف. وأخرجه البخاري (2/148) : حدثنا إبراهيم بن المنذر قال: ثنا أنس بن عياض... به. ثم أخرج (13/143) ، والبيهقي من طريق ابن جريج أن نافعاً أخبره أن ابن عمر رضي الله عنه أخبره... به مختصراً نحوه وزاد: في مسجد قباء؛ فيهم أبو بكر وعمر وأبو سلمة وزيد وعامر بن ربيعة. قال البيهقي: كذا قال: (وفيهم أبو بكر) ! ولعله في وقت آخر؛ فإنه إنما قدم أبو بكر رضي الله عنه مع النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ويحتمل أن تكون إمامته إياهم قبل قدومه وبعده. وقول الراوي: (وفيهم أبو بكر) أراد بعد قدومه .
قلت: وهذا التأويل لا بد منه وإن لم يرتضه الحافظ؛ وذلك لأن الرواية الأولى صريحة بأنه كان يؤمهم قبل مَقْدَمِ النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فليست تشمل أبا بكر؛ للسبب الذي ذكره البيهقي، ولذلك لم ينص فيها على أبي بكر. وأما الرواية الأخرى؛ فليس فيها ما في الأولى؛ فإن لفظها: كان سالم مولى أبي حذيفة يؤم المهاجرين الأوفي وأصحابَ النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في مسجد قباء؛ فيهم أبو بكر وعمر وأبو سلمة وزيد وعامر بن ربيعة. فليس فيها أن الإمامة الواردة فيها كانت قبل القدوم حتى يرد الإشكال؛ بل فيها عكس ذلك؛ فإن من المعلوم أن مسجد قباء إنما بناه النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعد قدومه إلى المدينة؛ كما في صحيح البخاري (7/195) . وفي هذه الرواية: أن إمامته بأبي بكر إنما كانت فيه؛ فهي كالنص على أن ذلك كان بعد القدوم، فإذا ضممت هذا إلى ما أفادته للرواية الأولى- كما هو الواجب في أمثاله- ينتج منه أن سالماً رضي الله عنه كان يؤمهم قبل القدوم وفيهم عمر؛ وغيره، وبعد القدوم وفيهم أبو بكر وغيره. وبذلك يطيح الاشكال من أصله. والله تعالى ولي التوفيق. (تنبيه) : قال المنذري في مختصره : وأخرجه البخاري؛ ليس فيه ذكر عمر وأبي سلمة ! وهذا النفي خطأ، كما عرفت مما سبق
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب نافع، سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے راوی ہیں کہ جب مہاجرین اولین رسول اللہ ﷺ سے پہلے ہجرت کر کے آئے تو انہوں نہ مقام عصبہ پر (قباء کے قریب) پڑاؤ کیا تو سالم مولیٰ ابی حذیفہ ؓ ان کی امامت کرایا کرتے تھے۔ ان لوگوں میں انہیں ہی قرآن سب سے زیادہ یاد تھا۔ ہیثم نے اضافہ کیا کہ اس جماعت میں سیدنا عمر بن خطاب اور ابوسلمہ بن عبدالاسد ؓ بھی ہوتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہ حفظ قرآن کی برکت تھی۔ کہ قریش کے اشراف کے مقابلے میں ایک نو عمرغلام ان کا امام تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آمد سے پہلے جب مہاجرین اوّلین (مدینہ) آئے اور عصبہ۱؎ میں قیام پذیر ہوئے تو ان کی امامت ابوحذیفہ ؓ کے آزاد کردہ غلام سالم ؓ کیا کرتے تھے، انہیں قرآن سب سے زیادہ یاد تھا۔ ہیثم نے اضافہ کیا ہے کہ ان میں عمر بن خطاب ؓ اور ابوسلمہ بن عبدالاسد ؓ بھی موجود ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: مدینہ میں قبا کے پاس ایک جگہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn ‘Umar said: When the first emigrants came (to Madinah), they stayed at al-‘Asbah (a place near Madinah) before the advent of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم). Salim, the client of Abu Hudhaifah (RA), acted as their imam, as he knew the Qur’an better than all of them, al-Haitham(the narrator) added: and ‘Umar (RA) b. al-Khattab and Abu Salamah b. ‘Abd al-Asad were among them.