Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Who Has More Right To Be Imam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
589.
جناب ابوقلابہ، سیدنا مالک بن حویرث ؓ سے راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے یا ان کے ساتھی سے فرمایا: ”جب نماز کا وقت ہو جائے تو اذان کہو، پھر اقامت کہو، پھر امامت وہ کرائے جو تم میں عمر میں بڑا ہو۔“ اور مسلمہ کی روایت میں ہے کہ ان دنوں ہم علم میں برابر برابر تھے۔ اور اسمعیل (ابن علیہ) کی روایت میں ہے کہ خالد حذا نے کہا: میں نے ابوقلابہ سے پوچھا: قراءت قرآن کا مسئلہ کیا ہوا؟ انہوں نے کہا: یہ دونوں اس میں قریب قریب تھے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناد الرواية الأولى صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجها هو ومسلم وأبو عوانة وابن خزيمة في صحاحهم . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وليس عندهم- إلا ابن خزيمة-: قال خالد... إلخ. أما الزيادة في الرواية الأخرى؛ فإنها مدرجة. والصواب أنها من قول أبي قلابة، كما في الرواية الأولى) إسناده: حدثنا مسدد: ثنا إسماعيل. (ح) وثنا مسدد: ثنا مسلمة بن محمد - المعنى واحد- عن خالد عن أبي قلابة عن مالك بن الحويرث. والزيادة في حديث مسلمة.
قلت: الإسناد الأول صحيح على شرط البخاري. والآخر ضعيف؛ من قبل مسلمة بن محمد- وهو الثقفي البصري-؛ وهو مختلف فيه؛ قال ابن معين: ليس حديثه بشيء . وقال أبو حاتم: شيخ ليس بالمشهور، يكتب حديثه . وقال الآخرِّي عن المصنف: حدثنا عنه مسدد أحاديث مستقيمة . قال: فقلت لأبي داودِ: إنه حدث عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة: إياكم والزَّنْجَ؛ فإنه خلق مُشوة ؟ فقال: من حدث بهذا فاتهمه وقال الساجي في ترجمته في هذا الحديث: رفعه عنه بعضهم، ووقفه بعضهم . قال الحافظ: وروي من طرق واهية . وأما ابن حبان فذكره في الثقات !
قلت: وهذا الحديث مما يدل على ضعفه؛ حيث أدرج في الحديث: وكنا يومئذ متقاربين في العلم! وإنما هي من كلام أبي قلابة، كما في حديث إسماعيل- وهو ابن علَيَّة-؛ وقال الحافظ في الفتح (2/135) - بعد ذكر رواية مسلمة هذه من طريق المصنف-: وأظن في هذه الرواية إدراجاً؛ فإن ابن خزيمة رواه من طريق إسماعيل بن عُلَيَة عن خالد قال: قلت لأبي قلابة: فأين القراءة؟ قال: إنهما كانا متقاربن. وأخرجه مسلم من طريق حفص بن غياث عن خالد الحذاء، وقال فيه: قال الحذاء: وكانا متقاربن في القراءه. ويحتمل أن يكون مستند أبي قلابة في ذلك هو إخبار مالك بن الحويرث، كما أن مستند الحذاء هو إخبارأبي قلابة له به، فينتفي الإدراج عن الإسناد. والله أعلم .
قلت: وهذا جمع حسن، لو ثبتت رواية مسلمة؛ وإذ ليس؛ فلا مسوغِّ لهذا الجمع! والحديث أخرجه البيهقي (3/121) من طريق المصنف. وأخرجه أحمد (3/436) : ثنا إسماعيل عن خالد... به. وأخرجه النسائي (1/108) من طريق أخرى عن إسماعيل؛ وليس عنده قول خالد: قلت... إلخ. وكذلك رواه سفيان عن خالد... به. أخرجه البخاري (2/88- 89) و (6/41) ، وأبو عوانة (1/332 و 2/8 و 349) ، والنسائي أيضا (1/104 و 126) ، والترمذي (1/399) ، وقال: حديث حسن صحيح . ثم أخرجه البخاري (2/112) ، ومسلم وأبو عوانة (2/8- 9) ، وابن ماجه
(1/309- 310) ، والبيهقي (3/67) ، وأحمد (5/53) من طرق أخرى عن خالد... به؛ وزاد أحمد في آخره من طريق شعبة: وصلوا كما رأيتموني أصلي . وتابعه أيوب عن أبي قلابة... به أتم منه. أخرجه البخاري (11/359 و 13/198- 199) ، ومسلم وأبو عوانة والشافعي في الأم (1/140) ، والدارمي (1/286) ، والبيهقي (3/120) ، وأحمد (3/436 و 5/53) من طرق عنه. وأخرجه النسائي (1/104- 105) ، والبخاري أيضا (2/87- 88و 89 و 135 - 136 و 239) ؛ وزاد في رواية- والشافعي والبيهقي- الزيادة التي عند أحمد عن شعبة. وكذا رواه الدارقطني (101) .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب ابوقلابہ، سیدنا مالک بن حویرث ؓ سے راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے یا ان کے ساتھی سے فرمایا: ”جب نماز کا وقت ہو جائے تو اذان کہو، پھر اقامت کہو، پھر امامت وہ کرائے جو تم میں عمر میں بڑا ہو۔“ اور مسلمہ کی روایت میں ہے کہ ان دنوں ہم علم میں برابر برابر تھے۔ اور اسمعیل (ابن علیہ) کی روایت میں ہے کہ خالد حذا نے کہا: میں نے ابوقلابہ سے پوچھا: قراءت قرآن کا مسئلہ کیا ہوا؟ انہوں نے کہا: یہ دونوں اس میں قریب قریب تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مالک بن حویرث ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے یا ان کے ایک ساتھی سے فرمایا: ”جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم اذان دو، پھر تکبیر کہو، پھر جو تم دونوں میں عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرے۔“ مسلمہ کی روایت میں ہے: اور ہم دونوں علم میں قریب قریب تھے۔ اسماعیل کی روایت میں ہے: خالد کہتے ہیں کہ میں نے ابوقلابہ سے پوچھا: پھر قرآن کہاں رہا؟ (یعنی قرآت قرآن کا مسئلہ کہ جس کو قرآن زیادہ یاد ہو وہ امامت کرائے) انہوں نے کہا: اس میں بھی وہ دونوں قریب قریب تھے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Malik b. al-Huwairith said that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) told him or some of his companions: When the time of prayer comes, call the Adhan, then call the iqamah, then the one who is oldest of you should act as your imam. The version narrated by Maslamah goes: He said: On that day we were almost equal in knowledge. The version narrated by Isma’il says: Khalid said: I said to Abu Qilabah: where is the Qur’an (i.e. why did the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) not say: The one who knows the Qur’an most should act as imam)? He replied: Both of them were equal in the knowledge of the Qur’an.