Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: If Two People Are Praying, One Of Whom Is The Imam, How Should They Stand ?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
610.
سیدنا ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے (ایک بار) اپنی خالہ ام المؤمنین سیدہ میمونہ ؓ کے گھر میں رات گزاری۔ رسول اللہ ﷺ رات کو اٹھے، آپ ﷺ نے مشکیزہ کھولا اور اس سے وضو کیا، پھر اس کا منہ بند کر دیا، پھر آپ نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔ تب میں بھی اٹھا اور اسی طرح وضو کیا جیسے کہ آپ ﷺ نے کیا تھا اور آ کر آپ ﷺ کے ساتھ بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ ﷺ نے مجھے میرے دائیں ہاتھ سے پکڑ کر اپنے پیچھے سے گھمایا اور اپنی دائیں جانب کھڑا کیا اور میں نے آپ ﷺ کے ساتھ مل نماز (تہجد) پڑھی۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرجه مسلم وأبو عوانة في صحيحيهما ، وهو في الصحيحين من وجه آخر عنه بنحوه، وسيأتي (رقم 1237) ) إسناده: حدثنا مسدد: ثنا يحيى عن عبد الملك بن أبي سليمان عن عطاء عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله رجال الصحيح ؛ وفي عبد الملك بن أبي سليمان كلام لا يضر؛ فإنه ما من أحد إلا ويخطئ، وقد احتج به مسلم في صحيحه ، وأخرج له هذا كما يأتي. والحديث أخرجه مسلم (2/183) ، وأبو عوانة (2/76) ، والنسائي (1/135) ، والبيهقي (3/99) ، وأحمد (رقم 2245) من طرق أخرى عن عبد الملك... به. وقد تابعه عن عطاء: ابن جريج: عند مسلم، وأحمد (رقم 3479) . وقيس بن سعد: عند مسلم، وأبي عوانة. وهو في الصحيحين وغيرهما من طريق كُرَيْبِ عن ابن عباس... نحوه أتم منه، وسيأتي في صلاة الليل (رقم 1245) ، ومنَ طرقه هناك ما أورده المصنف هنا عقب هذا. ومن طرقه ما في المسند برقم (2325 و 2413 و 2572 و 3243 و 3359 و 3451) ، وفي البخاري (2/169) .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے (ایک بار) اپنی خالہ ام المؤمنین سیدہ میمونہ ؓ کے گھر میں رات گزاری۔ رسول اللہ ﷺ رات کو اٹھے، آپ ﷺ نے مشکیزہ کھولا اور اس سے وضو کیا، پھر اس کا منہ بند کر دیا، پھر آپ نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔ تب میں بھی اٹھا اور اسی طرح وضو کیا جیسے کہ آپ ﷺ نے کیا تھا اور آ کر آپ ﷺ کے ساتھ بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ ﷺ نے مجھے میرے دائیں ہاتھ سے پکڑ کر اپنے پیچھے سے گھمایا اور اپنی دائیں جانب کھڑا کیا اور میں نے آپ ﷺ کے ساتھ مل نماز (تہجد) پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ ؓ کے گھر رات بسر کی تو رسول اللہ ﷺ رات کو اٹھے، مشک کا منہ کھول کر وضو کیا پھر اس میں ڈاٹ لگا دی، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے، پھر میں بھی اٹھا اور اسی طرح وضو کیا جس طرح آپ ﷺ نے وضو کیا تھا، پھر میں آ کر آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، تو آپ نے اپنے داہنے ہاتھ سے مجھے پکڑا، اور اپنے پیچھے سے لا کر اپنی داہنی طرف کھڑا کر لیا، پھر میں نے آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی فضیلت کا اثبات ہے کہ انہیں اوائل عمر ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کے مشاہدہ کا شوق تھا۔ ایک شخص جو اپنی نماز پڑھ رہا ہو، اس کو امام بنانا جائز ہے خواہ اس نے امام بننے کی نیت نہ کی ہو۔ بعض اوقات تہجد یا نفل نماز کی جماعت کرائی جا سکتی ہے۔ دو آدمیوں کی جماعت بھی درست ہے اور اس صورت میں وہ دونوں ایک صف میں برابر کھڑے ہوں گے۔ اثنائے نماز میں کوئی ضروری اصلاح ممکن ہو تو کر دینے اور قبول کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Abd Allah b. ‘Abbas (RA) said: When I was spending a night in the house of my maternal aunt Maimunah (RA), the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) got up at night, opened the mouth of the water skin and performed ablution. He then closed the mouth of the water-skin and stood for prayer. Then I got up and performed ablution as he did; then I came and stood on his left side. He took my hand, turned me round behind his back and set me on his right side; and I prayed along with him.