تشریح:
1۔ اس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کا اثبات ہے۔ کہا انہیں اوائل عمر ہی میں نبی ﷺ کے معمولات کے مشاہدہ کا شوق تھا۔
2۔ ایک شخص جو اپنی نماز پڑھ رہا ہو۔ اس کو اما م بنانا جائز ہے۔ خواہ اس نے امام بننے کی نیت نہ کی ہو۔
3۔ بعض اوقات تہجد یا نفل نماز کی جماعت کرائی جاسکتی ہے۔
4۔ دوآدمیوں کی جماعت بھی درست ہے۔ اور ا س صورت میں وہ دونوں ایک صف میں برابر کھڑے ہوں گے۔
5۔ اثنائے نماز میں کوئی ضروری اصلاح ممکن ہو تو کردینے اور قبول کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وسيأتي نحوه تاماً (برقم 1237) ) . إسناده: حدثنا عمرو بن عون: نا هُشَيْمٌ عن أبي بشر عن سعيد بن جبير عن عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرطهما؛ وأبو بشر: اسمه جعفر بن إياس. والحديث أخرجه البيهقي (3/95) من طريق أخرى عن هشيم... به. وأحمد (رقم 2652) من طريق شعبة عن أبي بشر... به. ولشعبة فيه شيخ آخر عن سعيد بن جبير؛ وسيأتي في صلاة الليل (رقم 1228) . وله في المسند طريقان آخران عن ابن جبير (رقم 3389 و 3490 و 3552) . وثالث: عند المصنف فيما يأتي.