باب: کوئی مرد اپنے بالوں کا جوڑا بنا کر نماز پڑھے؟
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: A Man Praying With His Hair Fastened (At The Back Of The Head))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
647.
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے دیکھا کہ عبداللہ بن حارث نماز پڑھ رہے تھے اور ان کے بال پیچھے سے بندھے ہوئے تھے، تو وہ ان کے پیچھے کھڑے ہو کر ان کے بال کھولنے لگے۔ انہوں نے (یعنی عبداللہ بن حارث نے دوران نماز میں) اس پر کوئی انکار نہ کیا۔ نماز کے بعد وہ ابن عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: آپ کو میرے سر سے کیا کام؟ (یعنی آپ نے میرے بال کیوں کھولے؟) انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے ”بالوں کا جوڑا بنا لینا ایسے ہے جیسے کوئی نماز پڑھے اور اس کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوں۔“
تشریح:
(1) مردوں کے لیے بالوں کا جوڑا بنانا بالخصوص نماز میں جائز نہیں۔ چاہیے کہ انہیں ویسے ہی لمبا چھوڑ دیا جائے اور سجدے کی حالت میں زمیں پر لگنے دیا جائے۔ دوسری حدیث میں صراحت ہےکہ ’’مجھے حکم ہے کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور بالوں کو نہ باندھوں اور کپڑے کونہ سمیٹوں۔،، (صحیح بخاری، حدیث: 812 و صحیح مسلم، حدیث: 490) (2)جن بزگوں کےمتعلق آیا ہے کہ انہوں نے جوڑا بنا یا ہوا تھا توشاید انہیں یہ ارشاد نبوی معلوم نہ تھا ۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے دیکھا کہ عبداللہ بن حارث نماز پڑھ رہے تھے اور ان کے بال پیچھے سے بندھے ہوئے تھے، تو وہ ان کے پیچھے کھڑے ہو کر ان کے بال کھولنے لگے۔ انہوں نے (یعنی عبداللہ بن حارث نے دوران نماز میں) اس پر کوئی انکار نہ کیا۔ نماز کے بعد وہ ابن عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: آپ کو میرے سر سے کیا کام؟ (یعنی آپ نے میرے بال کیوں کھولے؟) انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے ”بالوں کا جوڑا بنا لینا ایسے ہے جیسے کوئی نماز پڑھے اور اس کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مردوں کے لیے بالوں کا جوڑا بنانا بالخصوص نماز میں جائز نہیں۔ چاہیے کہ انہیں ویسے ہی لمبا چھوڑ دیا جائے اور سجدے کی حالت میں زمیں پر لگنے دیا جائے۔ دوسری حدیث میں صراحت ہےکہ ’’مجھے حکم ہے کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور بالوں کو نہ باندھوں اور کپڑے کونہ سمیٹوں۔،، (صحیح بخاری، حدیث: 812 و صحیح مسلم، حدیث: 490) (2)جن بزگوں کےمتعلق آیا ہے کہ انہوں نے جوڑا بنا یا ہوا تھا توشاید انہیں یہ ارشاد نبوی معلوم نہ تھا ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کے آزاد کردہ غلام کریب کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عباس نے عبداللہ بن حارث ؓ کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں اور ان کے پیچھے بالوں کا جوڑا بندھا ہوا ہے، تو وہ ان کے پیچھے کھڑے ہو کر اسے کھولنے لگے اور عبداللہ بن حارث چپ چاپ کھڑے رہے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: آپ نے میرا سر کیوں کھول دیا؟ تو انہوں نے کہا: اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ: ”اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے ہاتھ پیچھے رسی سے بندھے ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
اسی طرح سنن ابوداود حدیث ۶۴۶ میں ہے کہ ”بالوں کا جوڑا شیطان کی بیٹھک ہے۔“ مردوں کے لیے بالوں کا جوڑا بنانا بالخصوص نماز میں جائز نہیں۔ چاہیے کہ انہیں ویسے ہی لمبا چھوڑ دیا جائے اور سجدہ کی حالت میں زمین پر لگنے دیا جائے۔ دوسری حدیث میں صراحت ہے کہ ”مجھے حکم ہے کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور بالوں کو نہ باندھوں اور کپڑوں کو نہ سمیٹوں۔“ (صحیح بخاری، حدیث: 812 و صحیح مسلم، حدیث: 490) جن بزرگوں کے متعلق آیا ہے کہ انہوں نے جوڑا بنایا ہوا تھا تو شاید انہیں یہ ارشاد نبوی معلوم نہ تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): Kurayb the freed slave of Ibn Abbas (RA) reported: 'Abdullah ibn 'Abbas (RA) saw Abdullah ibn al-Harith praying having the back knot of the hair. He stood behind him and began to untie it. He remained standing unmoved (stationary). When he finished his prayer he came to Ibn Abbas (RA) and said to him: What were you doing with my head? He said: I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: A man who prays with the back knot of hair tied is the one praying pinioned.