Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Praying In Sandals)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
649.
سیدنا عبداللہ بن سائب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مکے میں صبح کی نماز پڑھائی، (اس نماز میں) آپ ﷺ نے سورۃ المؤمنون کی تلاوت شروع کی۔ جب سیدنا موسیٰ ؑ اور سیدنا ہارون ؑ یا یوں کہا کہ سیدنا موسیٰ ؑ اور سیدنا عیسیٰ ؑ کا ذکر آیا، ابن عباد کو شک ہے یا لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ تو نبی کریم ﷺ کو کھانسی آ گئی تو آپ ﷺ نے قراءت کو مختصر کر دیا اور رکوع کر لیا اور عبداللہ بن سائب اس میں حاضر تھے۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن سائب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مکے میں صبح کی نماز پڑھائی، (اس نماز میں) آپ ﷺ نے سورۃ المؤمنون کی تلاوت شروع کی۔ جب سیدنا موسیٰ ؑ اور سیدنا ہارون ؑ یا یوں کہا کہ سیدنا موسیٰ ؑ اور سیدنا عیسیٰ ؑ کا ذکر آیا، ابن عباد کو شک ہے یا لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ تو نبی کریم ﷺ کو کھانسی آ گئی تو آپ ﷺ نے قراءت کو مختصر کر دیا اور رکوع کر لیا اور عبداللہ بن سائب اس میں حاضر تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث پہلی حدیث ہی کے مضمون کے تکمیل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن سائب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مکہ میں صبح کی نماز پڑھائی، آپ نے سورۃ مؤمنون کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ جب آپ ﷺ موسیٰ۱؎ اور ہارون ؑ ، یا موسیٰ اور عیسیٰ ؑ کے قصے پر پہنچے (راوی حدیث ابن عباد کو شک ہے یا رواۃ کا اس میں اختلاف ہے) تو آپ ﷺ کو کھانسی آ گئی، آپ نے قراءت چھوڑ دی اور رکوع میں چلے گئے، عبداللہ بن سائب (سابقہ حدیث کے راوی) اس وقت وہاں موجود تھے۲؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: موسیٰ و ہارون علیہما السلام کا ذکر: (ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَى وَأَخَاهُ هَارُونَ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ) (سورة المومنون: ۴۵) میں ہے، اور عیسی کا ذکر اس سے چار آیتوں کے بعد: (وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ)(سورة المؤمنون: ۵۰) میں ہے۔ ۲؎: اس سے پہلے والی حدیث کی مناسبت باب سے ظاہر ہے اور یہ حدیث اسی حدیث کی مناسبت سے یہاں نقل کی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Abd Allah (RA) b. al-Sa’ib said; the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) led us in the morning prayer at Makkah. He began to recite Surah al-Mu’minin and while he came to description of Moses ؑ and Aaronؑ or the description of Moses and Jesus the narrator Ibn ‘Abbad doubts or other narrators differed amongst themselves on this word the prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) coughed and gave up (recitation) and then bowed ‘Abd Allah (RA) b. al-Sa’ib was present seeing all this incident.